بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار خرید وفروخت میں قیمت کی زیادتی کا حکم


سوال

ادھار پر چیز فروخت کرنے کی صورت میں زیادہ پیسے لینا ربا نہیں ہے، شرط یہ ہے کہ سودے کے وقت یہ طے ہو جائے کہ سودا ادھار ہے اور تاخیر کی صورت میں پیسوں میں بالکل اضافہ نہ کیا جائے۔ یہی سب علما کہتے ہیں، اس بارے میں قرآن یا حدیث یا صحابہ کا قول ہو تو اس کا حوالہ دے دیں۔

جواب

جمہور فقہا کی رائے کے مطابق کسی اثاثے کی خرید و فروخت میں نقد اور ادھار کی قیمتوں میں فرق رکھنا جائز ہے، کیوں کہ ادھار کی صورت میں رقم کی زیادتی صرف وقت کا عوض نہیں ہوتی بلکہ اس اثاثے کی قدر کے بڑھ جانے کی وجہ سے اس اثاثے ہی کا عوض ہوتی ہے، اس لیے ادھار کی صورت میں نقد رقم سے زائد رقم طے کرنا سود نہیں ہے۔ جمہور فقہائے کرام کا یہ اجماع خرید وفروخت کے متعلق قرآن و حدیث میں موجود ہدایات پر مبنی ہے۔ تفصیلی دلائل بمع حوالہ جات کے لیے دار الافتا سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔


فتوی نمبر : 143509200007

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں