بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار فروخت میں قیمت کی زیادتی اور بائع کا خیار رؤئت ساقط کرنے کا حکم


سوال

 1۔ ایک شخص ایک چیز خریدتا ہے 1000 روپے میں اور اس شئے کو بیچتا ہے 1500 روپے میں ایک سال یا چھ ماہ کی مدت دے کر، کیا اس طرح ثمن کی زیادتی کے ساتھ بیچنا جائز ہے یا نہیں؟

2۔ ایک شخص کسی باہر کے ہول سیلر سے شمسی آلات خریدتا ہےبغیر دیکھے، جس کی وہ تمام صفات سے واقف ہے اور جانتا ہے کہ یہ چیز اس طرح ہوگی، اور ہول سیلر صرف تصویر بھیج کر اس کی پہچان کرادیتا ہے بعد میں اس کو خیار رؤیت نہیں ملتا تو کیا اس طرح خرید و فروخت جائز ہے؟ 

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں ادھار خرید وفروخت طے کرنے پر زیادہ قیمت وصول کرنا جب کہ ثمن ادا کرنے کی مدت معلوم ہو اور کل قیمت بھی متعین ہو تو یہ جائز ہے سود میں داخل نہیں ہے۔ 

2۔ واضح رہے کہ کسی خریدار نے بغیر دیکھے کوئی چیز خریدی ہو تو شرعاً اس کو چیز کے دیکھنے کے وقت خیار رؤیت حاصل ہوتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں بھی خریدار کوبدستور  خیار ر ؤیت حاصل ہوگا، اور بائع کا یہ شرط لگانا کہ اس کو خیار رؤیت نہیں ملے گا شرعاً یہ شرط کالعدم ہے۔  

مبسوط سرخسی میں ہے:

"وإذا عقد العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم هذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد"۔

(کتاب البیوع، باب البیوع الفاسدۃ، ص:8، ج:13، ط:دار المعرفة)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"شراء ما لم يره جائز كذا في الحاوي وصورة المسألة أن يقول الرجل لغيره: بعت منك هذا الثوب الذي في كمي هذا وصفته كذا والدرة التي في كفي هذه وصفتها كذا أو لم يذكر الصفة، أو يقول: بعت منك هذه الجارية المنتقبة. وأما إذا قال: بعت منك ما في كمي هذا أو ما في كفي هذه من شيء هل يجوز هذا البيع؟ لم يذكره في المبسوط قال عامة مشايخنا: إطلاق الجواب يدل على جوازه عندنا كذا في المحيط من اشترى شيئا لم يره فله الخيار إذا رآه إن شاء أخذه بجميع ثمنه وإن شاء رده سواء رآه على الصفة التي وصفت له أو على خلافها كذا في فتح القدير هو خيار يثبت حكما لا بالشرط كذا في الجوهرة النيرة"۔

(کتاب البیوع، ص:58، ج:3، ط:رشیدیه)

العنایۃ شرح الہدایۃ میں ہے:

"(وكذا إذا قال رضيت ثم رآه له أن يرده) لأن الخيار معلق بالرؤية لما روينا فلا يثبت قبلها، وحق الفسخ قبل الرؤية بحكم أنه عقد غير لازم لا بمقتضى الحديث

(قوله وكذا إذا قال) تفريع على مسألة القدوري: يعني كما أن له الخيار إذا لم يقل رضيت فكذا إذا قال ذلك ولم يره ثم رآه، لأن الخيار معلق بالرؤية بالحديث الذي رويناه والمعلق بالشيء لا يثبت قبله لئلا يلزم وجود المشروط بدون الشرط، ولأنه لو لزم العقد بالرضا قبل الرؤية لزم امتناع الخيار عندها، وهو ثابت بالنص عندها فما أدى إلى إبطاله فهو باطل"

(کتاب البیوع، باب خیار الرؤیۃ، ص:337، ج:6، ط:مطبعه مصفی البابی) 

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144306100622

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں