میں نے ایک گاڑی بیچی 12,50,000 روپے میں 6 ماہ کے ادھار پر اور اسٹامپ پیپر پر لکھوایا کہ اگر گاڑی خریدنے والی پارٹی نے ٹائم پر پیسے نہیں دیے، تو اس پر 5لاکھ جرمانہ ہوگا ، پھر مجھے پیسے 3سال کے بعد ملے، تو میں نے ان سے 5لاکھ جرمانے کو چھوڑ کر 1,45,000 لیے، اب میں یے پوچھنا چاہتا ہوں کی یہ 1,45,000 روپے لینا میرے لیے جائز ہے یا سود ہے ؟
مالی جرمانہ لینا یا کسی بھی معاہدہ میں ایسی شرط رکھنا ،یا ایسی شرط پر راضی ہونا ناجائز اور حرام ہے؛ لہذا سائل کے لیے، گاری خریدنے والی پارٹی سے وقت پر پیسے ادا نہ کرنے کی صورت میں مالی جرمانہ(1,45,000) لینا یعنی جس رقم پر گاڑی ادھار میں فروخت کی تھی ،اس سے زیادہ وصول کرنا جائز نہیں ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح : وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال، وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز، ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف، قال في الشرنبلالية : ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه، ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان......... وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ، و الحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".
(کتاب الحدود، باب التعزیز، ج:4، ص:62، ط:سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144505100305
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن