بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار پر سونا خریدنا


سوال

 اگر کوئی شخص اپنا سونا اپنے ہی گھر والوں کو دینا چاہ رہا ہو مگر پوری رقم ایک ساتھ ادا کرنا مشکل ہو،  تو کیا ادھار کی صورت میں سونے کا سودا کیا جا سکتا ہے  ؟ اور  سونے  سودا ادھار پر کرنے کا کیا شرعی طریقہ ہوگا ؟ یعنی  جب پوری پیمنٹ ہوگی اس وقت سونے کی قیمت دیکھی جائے گی یا جب  سودا  ہو رہا ہوگا   اس وقت جو سونے کی قیمت ہے وہ قیمت دیکھی جائے  گی؟ 

دراصل میں چاہتا ہوں کہ یہ سونا میں باہر بازار میں یا دکان میں بیچنے سے اچھا ہے میں اپنے ہی گھر کے کسی فرد کو یہ سونا بیچ دوں  اور اس سے اس سونے کی قیمت لے لوں،  میرے گھر میں جو بھی سونے کو خریدے گا اس کے لیے ایک ہی وقت میں پوری پیمنٹ کرنا   ناممکن ہے،  قسطوں میں ہی ادائیگی کرنا ممکن ہوگا۔تو اس اعتبار سے شرعی طریقہ کیا ہوگا؟  یہ ذرا بتا دیں!

جواب

واضح رہے کہ سونے چاندی کا آپس میں تبادلہ کرنا، یا سونے چاندی کا عام کرنسی سے تبادلہ کرنا شرعًا  "بیع صرف " کہلاتا ہے، اور بیع صرف کی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ دونوں بدلین پر مجلس کے اندر قبضہ پایا جائے، لہذا سونے/ چاندی کو نوٹوں کے بدلے بیع صرف ہونے کی وجہ سے ادھار سے فروخت کرنا جائز نہیں  ہے۔

سائل کے معاملہ کے لیے جواز کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ پورا سونا ایک ساتھ نہ فروخت کیا جائے،  بلکہ خریدار کے پاس جتنی رقم موجود ہے اتنی مالیت کا سونا فروخت کرے، پھر جب مزید رقم کا انتظام  ہوجائے اس وقت مزید سونا فروخت کرلے، یا دوسری صورت یہ ہے کہ گھر کے افراد میں سے جو شخص سونا خریدنا چاہتا ہو اور اس کے پاس سونے کے لیے پوری رقم نہ ہو، تو کہیں سے بھی بطور قرض رقم حاصل کرکے سائل کو نقد قیمت ادا کرے ، پھر سائل اپنی حاجت کے بقدر رقم رکھ کر باقی رقم اس کو قرض دے دے ، اور پھر قرض کی وصولی  کی ترتیب بنالیں، اس طرح خریدار رشتہ دار اپنا لیا ہوا قرضہ یکمشت واپس کرے گا اور سائل کا قرضہ قسطوں میں لوٹائے گا۔  بہر حال ایسی صورت اختیار کی جائے کہ جس میں سونے کو نقد فروخت کیا جارہا ہو،  ادھار سے مکمل اجتناب کیا جائے۔

البحر الرائق میں ہے:

"(هو بيع بعض الأثمان ببعض) كالذهب والفضة إذا بيع أحدهما بالآخر أي بيع ما من جنس الأثمان بعضها ببعض وإنما فسرناه به ولم نبقه على ظاهره ليدخل فيه بيع المصوغ بالمصوغ أو بالنقد فإن المصوغ بسبب ما اتصل به من الصنعة لم يبق ثمنا صريحا ولهذا يتعين في العقد ومع ذلك بيعه صرف۔۔۔والرابع في شرائطه فأربعة، الأول قبض البدلين قبل الافتراق بالأبدان۔۔۔الثالث أن لا يكون بدل الصرف مؤجلا فإن أبطل صاحب الأجل الأجل قبل التفرق ونقد ما عليه ثم افترقا عن قبض من الجانبين انقلب جائزا وبعد التفرق لا۔"

(کتاب الصرف،ج:6، ص:209، ط: دار الکتاب الاسلامی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"باب الصرف۔۔ (ہو) لغۃً: الزیادۃ، وشرعاً (بیع الثمن بالثمن) أی ماخلق للتنمیۃ ومنہ المصوغ (جنسا بجنس أو بغیر جنس) کذہب بفضۃ (ویشترط) عدم التأجیل والخیار و(التماثل) أی التساوی وزناً (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلیۃ (قبل الافتراق)۔"

(باب الصرف، ج:۵، ص:۲۵۷،ط: دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: وفي جامع الفصولين أيضا: لو ذكرا البيع بلا شرط ثم ذكرا الشرط على وجه العقد جاز البيع ولزم الوفاء بالوعد، إذ المواعيد قد تكون لازمة فيجعل لازما لحاجة الناس۔"

(باب البیع الفاسد، ج:5، ص:84، ط: دار الفکر)

فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:

"سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین دریں مسئلہ کہ آج مثلاً سونے کا حاضر بھاؤ ۶۰۰ روپے فی تولہ ہے، ایک سنار ہم سے ۱۰ تولہ سونا مانگتاہے، ایک ماہ کے ادھار پر ہم ا س سے کہتے ہیں کہ میں تو ۶۴۰ روپے فی تولہ دوں گا۔ وہ کہتا ہے کہ دے دو، رقم ایک ماہ میں ادا کردوں گا۔ ہم اس کو سونا دیتے ہیں تو عرض یہ ہے کہ آج کے بھاؤ سے ہمیں ۱۰ تولہ سونے میں ۴۰۰ روپے بچت ہوتی ہے، کیا یہ ہمارے لیے جائز ہے یا نہیں؟
جواب:یہ تو بیع صرف ہے، اس میں اُدھار جائز نہیں۔بیع سابق صحیح نہیں ہے، فاسد ہے، اس میں جو نفع ہوا ہے‘ خیرات کردیا جائے۔"

(سود کا بیان ، ج:۸، ص:۴۰۱،ط:جمعیۃ پبلیکیشنز، لاہور) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101908

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں