بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار خریداری کرنے کا حکم


سوال

میں تاجر ہوں، اور مختلف جگہوں سے سامان ِتجارت خرید تا ہوں ،اور خریدو فروخت میں ادھار اور نقد دونوں معاملہ ہوتا ہے ،اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میرے پاس  پیسہ موجود ہوتا ہے ،پھر بھی سامان تجارت ادھار خرید کر لا تاہو، پھر سامان فروخت کرکے پیسہ واپس کردیتا ہوں ،کیا اس طریقے سے کاروبار کرنا سنت کے خلاف ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جس طرح نقد معاملہ کرنا جائز ہے ،ویسے ہی معاملات میں ادھار کرنا بھی جائز ہے، البتہ اس بات کا خیال رہے کہ ادھار   خریداری کے وقت سامان کی مکمل قیمت ، ادائیگی کا وقت اور دن متعین کرلیا جائے ، تاکہ بعد میں کسی قسم کا کوئی جھگڑا نہ ہو۔

درر الحکام میں ہے:

"البيع ‌مع ‌تأجيل ‌الثمن وتقسيطه صحيح."

(الكتاب الاول البيوع، الباب الثالث في بيان المسائل المتعلقة بالثمن، ج:1، ص:217، ط:دار الجيل)

وفیہ ایضا:

"‌يلزم ‌أن ‌تكون ‌المدة معلومة في البيع بالتأجيل والتقسيط الأجل يتعين بكذا سنة أو شهرا أو يوما أو إلى الشهر الفلاني وما أشبه ذلك فإذا عقد البيع على أجل مجهول فسد البيع."

(الكتاب الاول البيوع، الباب الثالث في بيان المسائل المتعلقة بالثمن، ج:1، ص:228، ط:دار الجيل)

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌وصح ‌بثمن ‌حال) وهو الأصل (ومؤجل إلى معلوم) لئلا يفضي إلى النزاع."

(كتاب البيوع، مطلب في الفرق بين الأثمان والمبيعات، ج:4، ص:531، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101654

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں