بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار خرید کر آگے فروخت کرنا


سوال

میں  قسطوں کا کام کرتا ہوں؛  مثال کے طور پر ہم کسی بندے کو اگر فریج  قسطوں پر  دیتے ہیں اس کے بعد وہ ہم سے فریج لے کر آگے فروخت کردیتا  ہے،   تو اس میں ہم پر  کوئی گناہ تو نہیں آئے گا؟ 

ہمارا  یہ فریج فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟

تفصیل سے جواب دیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں فریج یا کوئی اور منقولی چیز  ادھار خریدنے اور اس  پر قبضہ کرنے  کے بعد خریدار  اگر اسے آگے کسی اور کو نقد یا ادھار  فروخت کردیتا ہے تو دوسرا سودا شرعا جائز ہوگا، البتہ  خریدار آگے فروخت کرنے سے قبل  اگر فریج یا کوئی اور منقولی چیز پر قبضہ کرنے سے قبل اسے آگے فروخت کرتا ہے، تو اس صورت میں دوسرا سودا شرعا فاسد ہوگا،  جسے فسخ کرنا شرعا ضروری ہوگا، اسی طرح سے  خریدار سائل سے ادھار خرید کر اسے ہی نقد فروخت کرتا ہے، جسے فقہ کی اصطلاح میں " بیع عینہ  " کہتے ہیں، تو ایسا کرنا بھی جائز نہ ہوگا  بلکہ مکروہ ہے، امام محمد  رحمہ  اللہ نے اسے سود خوروں كا ايجاد  کردہ طریقہ  قرار ديا هے۔

شرح المجلة لسلیم رستم باز میں ہے:

"البیع مع تاجیل الثمن وتقسیطه صحیح…، یلزم أن تکون المدة معلومة فی البیع بالتاجیل والتقسیط."

(البیوع، الباب الثالث: فی بیان المسائل المتعلقة بالثمن، الفصل الأول: فی بیان المسائل المترتبة علی أوصاف الثمن وأحوالهرقم المادة: ٢٤٥ - ٢٤٦، ص: ١٢٥،ط:  مکتبة حنفیة کوئٹه)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" وإذا عرفت المبيع والثمن فنقول من حكم المبيع إذا كان منقولا أن لا يجوز بيعه قبل القبض... وأما إذا تصرف فيه مع بائعه فإن باعه منه لم يجز بيعه أصلا قبل القبض كذا في المحيط".

( كتاب البيوع، الباب الثاني فيما يرجع إلى انعقاد البيع وفي حكم المقبوض على سوم الشراء وغيره، الفصل الثالث في معرفة المبيع والثمن والتصرف فيهما قبل القبض، ٣ / ١٣، ط: دار الفكر)

رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:

"مطلب في بيع العينة.

(قوله: في بيع العينة) اختلف المشايخ في تفسير العينة التي ورد النهي عنها. قال بعضهم: تفسيرها أن يأتي الرجل المحتاج إلى آخر ويستقرضه عشرة دراهم ولا يرغب المقرض في الإقراض طمعا في فضل لا يناله بالقرض فيقول لا أقرضك، ولكن أبيعك هذا الثوب إن شئت باثني عشر درهما وقيمته في السوق عشرة ليبيعه في السوق بعشرة فيرضى به المستقرض فيبيعه كذلك، فيحصل لرب الثوب درهما وللمشتري قرض عشرة. وقال بعضهم: هي أن يدخلا بينهما ثالثا فيبيع المقرض ثوبه من المستقرض باثني عشر درهما ويسلمه إليه ثم يبيعه المستقرض من الثالث بعشرة ويسلمه إليه ثم يبيعه الثالث من صاحبه وهو المقرض بعشرة ويسلمه إليه، ويأخذ منه العشرة ويدفعها للمستقرض فيحصل للمستقرض عشرة ولصاحب الثوب عليه اثنا عشر درهما، كذا في المحيط، ... وقال محمد: هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال ذميم اخترعه أكلة الربا. وقال - عليه الصلاة والسلام - «إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر ذللتم وظهر عليكم عدوكم»."

( كتاب البيوع، باب الصرف، ٥ / ٢٧٣، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101083

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں