بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار فروخت کی ہوئی چیز پر ڈالر کے ریٹ کے بڑھنے کی وجہ سے زیادہ رقم مانگنا


سوال

میرے والد کے دو مکان تھے، ان کے انتقال کے وقت تمام ورثاء نے اپنی رضامندی سے ایک مکان دو بھائیوں کو دیا تھا، اور جو دوسرا مکان تھا وہ باقی چار بھائیوں اور دو بہنوں کو مل گیا ، پھر چار بھائی اور بہنوں نے اس مکان کی قیمت پینسٹھ لاکھ لگائی تھی، تو میں (سائل) نے یہ مکان ان سے خرید لیا، اس کے بعد ایک بھائی کا پورا حصہ دے دیا اور باقی دو بھائیوں کا تقریبا پانچ، پانچ لاکھ روپے دے چکا ہوں، البتہ بہنوں کو ابھی تک کچھ دیا نہیں۔ یہ عقد ہم نے  2016 میں کیا تھا ، اب میں چاہتا ہوں کہ جو حصے ان کا میرے پاس باقی ہیں، وہ حصے ان کو دے دوں، لیکن وہ لوگ کہہ رہے ہیں  کہ اب ڈالر کی قیمت بڑھ گئی ہے تو ہمیں اس اعتبار سے ایک کروڑ بیس لاکھ دے دو۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ: 

1۔۔ 2016 میں جو عقد ہم نے کیا تھا اس حساب سے ان کو حصہ ملے گا یا آج کل کے حساب سے؟

2۔۔ اگر آج کل کے حساب سے جو ایک کروڑ بیس لاکھ بنتا ہے میں ان کو دے دوں تو ان بھائیوں کا جو اپنا حصہ لے چکے ہیں ، مکان کی صورت میں ان کا حق ہوگا یا نہیں ،اس پیسے میں؟

3۔۔ اگر وہ لوگ مجھ سے ڈبل قیمت کا مطالبہ کررہے ہیں، تو کیا میں بھی جو پیسے دے رہا ہوں، ان کو اس کا ڈبل مانگ سکتا ہوں؟ 

جواب

واضح رہے کہ کوئی وارث ترکہ میں سے کوئی چیز لے کر (خواہ وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو)  صلح کرلے اور ترکہ میں سے اپنے باقی حصہ سے دست بردار ہوجائے تو یہ بھی درست ہے، اسے اصطلاح میں " تخارج" کہتے ہیں۔چناں چہ صورتِ مسئولہ میں جب بقیہ ورثاء نےایک مکان لے کر  دوسرا مکان دو بھائیوں میں تقسیم کردیا تو ان کے لیے  ایسا کرنا جائز ہے۔

نیزجب مشتری کوئی چیز  خریدتا ہے تو اس کی  رقم اس کے ذمہ قرض ہوتی ہے اور قرض  کے بارے میں شرعی ضابطہ یہ ہے کہ جتنا قرض لیاجائے اتنی ہی مقدار قرض دار پر واپس کرنالازم ہے، چاہے جتنے عرصے بعد واپسی ہو، قرض میں دی گئی رقم کی مالیت گھٹنے یا بڑھنے کا شریعت نے اعتبار نہیں کیا ہے، چنانچہ شریعتِ مطہرہ کا مسلمہ اصول ہے کہ’’الدیون تقضیٰ بأمثالها‘‘ یعنی قرضوں کی واپسی ان قرضوں کے مثل (برابر) سے ہی ہوگی، اسی لیے اگر قرض کی واپسی میں اضافہ کا مطالبہ کیا جائے تو وہ عین سود ہوگا۔ البتہ اگر  کسی پیشگی معاہدہ و شرط کے بغیر قرض دار خود سے قرض کی واپسی کے وقت قرض خواہ کا احسان مانتے ہوئے کچھ زیادہ ادائیگی کردے اور اضافے کے ساتھ ادائیگی کا عرف نہ ہو تو یہ اس کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا اور اس پر اسے اجر و ثواب بھی ملے گا، کیوں کہ حدیث میں بھی اس بات کی ترغیب دی گئی ہے، چناں چہ آپ ﷺ نے فرمایا :تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرض کی ادائیگی زیادہ اچھے طریقہ سے کرنے والا ہو۔  لہٰذا جس طرح وقت پر قرضہ ادا کرنا اس میں شامل ہے، اسی طرح  بلا شرط بطور تبرع کچھ بڑھا کر ادا کرنا بھی اچھے طریقہ سے ادا کرنے میں شامل ہے۔ لیکن یہ واضح رہے کہ قرض خواہ صراحۃً یا اشارۃً یا کنایۃً زیادتی کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔

چناں چہ صورتِ مسئولہ میں سائل نے جب اپنے تین بھائیوں اور دو بہنوں سے مذکورہ مشترکہ مکان پینسٹھ لاکھ روپے میں خرید لیا تھا جس سے ایک بھائی کا حصہ ادا کردیا ہے، اب باقی دو بھائیوں اور دو بہنوں کا مذکورہ رقم میں جو حصہ بنتا ہے، وہی ادا کرنا سائل پر لازم ہے، البتہ سائل اگر  اپنی طرف سے کچھ اضافہ کے ساتھ دے دے تو یہ اس کی طرف سے تبرع و احسان شمار ہوگا۔

الأشباہ والنظائر لابن نجیم  میں ہے:           

"لو قال الْوارث: تركت حقّي لم يبطل حقّه؛ إذ الملك لا يبطل بالتّرك."

 (ما یقبل الاسقاط من الحقوق وما لا یقبله، ص:309، ط: قدیمی)

صحيح مسلم میں ہے:

''عن عطاء بن يسار، عن أبي رافع، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم استسلف من رجل بكراً، فقدمت عليه إبل من إبل الصدقة، فأمر أبا رافع أن يقضي الرجل بكره، فرجع إليه أبو رافع، فقال: لم أجد فيها إلا خياراً رباعياً، فقال: «أعطه إياه، إن خيار الناس أحسنهم قضاءً»''

(باب من استسلف شيئا فقضى خيرا منه، وخيركم أحسنكم قضاء، 3/ 1224، رقم الحدیث: 1600، ط: دار إحیاء التراث العربی)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144311100525

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں