بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کے ڈرائیونگ کا حکم


سوال

جناب دریافت کرنا چاہتی ہوں میرے شوہر دوسرے شہر میں کام کرتے ہیں،اور وہیں ان کا کا قیام ہوتا ہے کچھ دن ہمارے ساتھ کچھ دن دوسرے شہر میں، میرے بچے ابھی چھوٹے ہیں ڈرائیور نگ نہیں کرسکتے ،کبھی کبھار بہت سخت ضرورت بھی پیش آتی ہے جس کی وجہ سے پریشانی بھی ہوتی ہوں،کیا میرے لئے ڈرائیونگ سیکھنا اور گاڑی چلانا پردے کی پابندی کے ساتھ جب تک بچے اس قابل نہ ہوجائیں جائز ہے؟

جواب

واضح  رہے کہ خواتین کے لیے نفسِ گاڑی چلانا تو حرام یاناجائز نہیں،البتہ ڈرائیونگ کی تربیت کے دوران غیرمحارم سے میل جول اور اختلاط کی وجہ سے،اورگھر سے نکلنے میں بہت سے فتنوں کےاندیشہ کے پیشِ نظر خواتین کے لیے ڈرائیونگ جائز  نہیں،لیکن اگر سائلہ بامر مجبوری سیکھنا چاہتی ہے تو  گاڑی چلانےکی ٹریننگ دینے کے  لیے عورت  یا محرم مرد کا ہونا ضروری ہے،نیز خواتین کے لیے بلا ضرورت ڈرئیونگ وغیرہ سے احتراز کرنا چاہیے، البتہ اگر کبھی ڈرائیونگ کی ضرورت پیش آجائے تو بغیر محرم کے مسافت سفر کے بقدر سفر کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اپنے شہر کے اندر ڈرائیونگ کرنا جائز ہوگا اور اس دوران مکمل پردہ کا اہتمام ضروری ہوگا۔

قرآن کریم میں ہے:

"{ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ} [الأحزاب: 33]"

سنن أبی داود  میں ہے:

"عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:«صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها، وصلاتها في مخدعها أفضل من صلاتها في بيتها»."

 (کتاب الصلاۃ، باب التشديد في ذلك، ج:1 ص:223 ط: المطبعة الأنصارية)

فتاوی شامی  میں ہے:

"لا تركب مسلمة على سرج للحديث. هذا لو للتلهي، ولو لحاجة غزو أو حج أو مقصد ديني أو دنيوي لا بد لها منه فلا بأس به.و في الرد : (قوله : للحديث) وهو «لعن الله الفروج على السروج» ذخيرة. لكن نقل المدني عن أبي الطيب أنه لا أصل له اهـ. يعني بهذا اللفظ وإلا فمعناه ثابت، ففي البخاري وغيره «لعن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - المتشبهين من الرجال بالنساء والمتشبهات من النساء بالرجال» وللطبراني «أن امرأة مرت على رسول الله - صلى الله عليه وسلم - متقلدة قوسا فقال: لعن الله المتشبهات من النساء بالرجال والمتشبهين من الرجال بالنساء» " (قوله ولو لحاجة غزو إلخ) أي بشرط أن تكون متسترة وأن تكون مع زوج أو محرم (قوله أو مقصد ديني) كسفر لصلة رحم ط."

(کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغيره، فصل في البيع، فرع يكره إعطاء سائل المسجد إلا إذا لم يتخط رقاب الناس، ج:6  ص:423 ط: سعيد)

البحر الرائق  ميں هے:

"ولا تركب امرأة مسلمة على السرج لقوله - عليه الصلاة والسلام - «لعن الله السروج على الفروج» هذا إذا ركبت متلهية أو متزينة لتعرض نفسها على الرجال فإن ركبت لحاجة كالجهاد والحج فلا بأس به."

(كتاب الكراهية، فصل في اللبس ،توسده وافتراشه أي الحرير، ج:8 ص:215 ط: دار الكتاب الإسلامي)

المحیط البرہانی ميں هے:

"وقوله: ولا تركب امرأة مسلمة على سرج بظاهره، نهى النساء عن الركوب على السرج، وبه نقول وإنه خرج موافقا لقوله عليه السلام: «لعن الله الفروج على السروج»  والمعنى في النهي من وجهين؛ أحدهما: أن هذا تشبه بالرجال، وقد نهين عن ذلك، الثاني: أن فيه إعلان الفتن وإظهارها للرجال، وقد أمرن بالستر، قالوا: وهذا إذا كانت شابة، وقد ركبت السرج والفرج، فأما إذا كانت عجوزا أو كانت شابة إلا أنها ركبت مع زوجها بعذر بأن ركبت للجهاد، وقد وقعت الحاجة إليهن للجهاد، أو للحج أو للعمرة فلا بأس إن كانت مستترة، فقد صح أن نساء المهاجرين كن يركبن الأفراس، ويخرجن للجهاد، فكان رسول الله عليه السلام يراهن و (لا) ينهاهن، وكذلك بنات خالد بن الوليد كن يركبن، ويخرجن للجهاد يسقين المجاهدين في الصفوف ويداوين الجرحى."

 (كتاب الاستحسان والكراهية، الفصل السابع والعشرون في البيع، والاستيام على سوم الغير، ج:5 ص:384 ط: دار الكتب العلمية)

منحۃ السلوک فی شرح تحفۃ الملوک میں ہے:

"قوله: (ولا تركب المرأة على السرج) لقوله عليه السلام: "لعن الله الفروج على السروج.قوله : ( إلا للضرورة ) يعني إذا كانت المرأة في سفر الحج وغيره، واضطرت للركوب على السرج، تركب مستديرة، لأن الضرورة تبيح المحظورة."

 (کتاب الکراھیة، فصل، فروع، ص:421 ط: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101158

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں