بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

متحدہ عرب امارات میں تراویح سے متعلق چند سوالات


سوال

میں متحدہ عرب امارات میں ہوں اور یہاں تراویح کی نماز 8 رکعات پڑھتے ہیں، لیکن امام صاحب تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد فوراَ سورۃ الفاتحہ پڑھنا شروع کر دیتے ہیں، میرا نہیں خیال کہ اتنی جلدی میں ثناء پڑھی جا سکتی ہے، ایک بار تسبیح سبحان اللہ کے برابر بھی شاید وقفہ نہیں کرتے، اور قعدہ دوم میں بھی گمان ہے درود ابراہیمی نہیں پڑھتے یا کوئی بہت مختصر درود یا دعا پڑھتے، کیوں کہ میں بمشکل درود تک پہنچ پاتا کہ سلام پھیر لیتے، ایک دن ایک ساتھی کو نماز کے لیے ساتھ لے گیا، اس کے بعد وہ نہیں گیا، کہتا کہ ’’نہ یہ ثناء پڑھتے، نہ درود، اس لیے میں ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتا۔‘‘

۱۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ثناء کے بغیر نماز ہو جاتی ہے؟

۲۔ کیا درود ابراہیمی کے بغیر نماز ہو جاتی ہے؟

۳۔ اس کے بعد نمازِ وتر پڑھتے ہیں، لیکن نماز ِ وتر پہلے دو رکعت پڑ ھتے اور سلام پھیر لیتے، پھر تیسری رکعت الگ سے پڑھتے اور رکوع سے کھڑے ہو کر دعا کرتے اور دعا میں اپنے شیوخ الامارات کا نام بھی لیتے، پھر سجدہ اور سلام، اس پر بھی راہ نمائی چاہیے، کیوں کہ ہمارے کچھ دوستوں کے مطابق ان کی نماز ہی نہیں ہوتی، وہ کہتے نماز میں شیخوں کا ذکر کیوں اور کیسے کرتے؟

جواب

۱۔ واضح رہے کہ نماز میں تکبیرِ تحریمہ کے بعد قراءت سے پہلے ثناء پڑھنا امام، مقتدی اور منفرد سب کے لیے مسنون ہے، نہ پڑھنے کی صورت میں سنت کے ثواب سے محرومی ہے اور جلدی کے باعث اسے مستقل چھوڑنے کی عادت بنانا درست نہیں ہے، صورتِ مسئولہ میں ممکن ہے کہ امام تیزی سے ثناء پڑھ لیتا ہو اور مقتدی نہ پڑھ سکتے ہوں، بہر صورت نماز ہوجاتی ہے۔

۲۔ نماز کے آخری قعدے میں درود کا پڑھنا مسنون ہے، خواہ کوئی سا بھی درود پڑھا جائے، اسے ترک کرنے میں ثواب سے محرومی ہے، اگر کوئی نماز میں درود نہیں پڑھتا تو اس سے نماز ہوجاتی ہے اور سجدہ سہو بھی لازم نہیں آتا، لیکن اسے چھوڑنے کے عادت نہیں بنانی چاہیے، ہوسکتا ہے کہ سائل کا امام سرعت میں پڑھتا ہوکہ مقتدیوں کو پڑھنے کا موقع نہ ملتا ہو۔

۳۔ سائل کے لیے ایسے امام کے ساتھ نمازِ وتر پڑھنا درست نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی وتر کی نماز علیحدہ پڑھے، اس لیے کہ احناف کے ہاں نمازِ وتر تین رکعت اور ایک سلام کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے، جبکہ مذکورہ امام وتر کو دو سلاموں کے ساتھ پڑھا رہا ہے، لہٰذا سائل نے اب تک جتنی وتر کی نمازیں اس امام کے ساتھ پڑھی ہیں، ان کا اعادہ اس پر لازم ہے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"(سننها) رفع اليدين للتحريمة، ونشر أصابعه، وجهر الإمام بالتكبير، والثناء... والصلاة على النبي  صلى الله عليه وسلم  والدعاء."

(كتاب الصلاة، الباب الرابع في صفة الصلاة، الفصل الثالث في سنن الصلاة، ج: 1، ص: 72، ط: دار الفكر بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

 "وسنة في الصلاة.

(قوله وسنة في الصلاة) أي في قعود أخير مطلقا، وكذا في قعود أول في النوافل غير الرواتب تأمل."

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ج: 1، ص: 518، ط: دار الفكر بيروت)

وفيه أيضا:

"ترك السنة لا يوجب فسادا ولا سهوا بل إساءة لو عامدا غير مستخف."

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ج: 1، ص: 474، ط: دار الفكر بيروت)

البحر الرائق میں ہے:

"فظهر بهذا أن المذهب الصحيح ‌صحة ‌الاقتداء بالشافعي في الوتر إن لم يسلم على رأس الركعتين وعدمها إن سلم."

(كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ج: 2، ص: 42، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406101527

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں