بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

متعین رقم کے عوض ٹھیکہ کے حصول سے دستبردار ہونے کا حکم


سوال

کچھ کمپنیاں جن کو حکومت ٹھیکے دیتی ہے، اور ان میں سے ہر ایک کمپنی کے ساتھ  ٹھیکہ لینے کاسرکاری لائسنس ہوتاہے اور اسی کے ساتھ حکومت کی طرف سے  طے شدہ شرا ئط پر بھی  ہر ایک کمپنی پوری اترتی ہے، لیکن جب حکومت ان کو کسی کام کا ٹھیکہ دینا چاہتی ہے، تو اس دوران ان میں سے ایک  کمپنی دوسری کمپنیوں کو  یہ کہتی ہے کہ جب میں حکومت کو ریٹ دینے لگوں  تو آپ لوگ اس  میں میرا مقابلہ نہ کریں، جس  کے بدلے میں  آپ لوگوں کو ایک متعین رقم (ایک لاکھ ، دس لاکھ، وغیرہ) دوں گا ۔ 

اب پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں جو رقم ایک کمپنی دوسری کمپنیوں کو دیتی ہے تو اس کےلیے یہ رقم ان کو دینا اور اسی طرح  دوسرے کمپنیوں کا اس سے یہ رقم لینا شرعا کیسا ہے ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں ایک کمپنی   کا دیگر کمپنیوں کو اپنے حق میں دستبردار ہونے پر رقم دینا اور دیگر کمپنیوں کا رقم لینا شرعا رشوت  کی لین  دین ہے ، اور رشوت کا لینا اور دینا دونوں عمل ناجائز ہیں ، لہذا کمپنیوں کا مذکورہ بالا طریقہ اختیارکرنا اور اس پر رقم وصول کرنا شرعا ناجائز ہے ۔ 

درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام میں ہے: 

"حرمة الرشوة - والرشوة حرام شرعا وحرمتها ثابتة بالكتاب والسنة وقد ورد في القرآن الكريم قوله تعالى - : { يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل} وتصدير الخطاب بالنداء والتنبيه للاعتناء بمضمون ما ورد بالآية الكريمة , والمقصود من الباطل الأسباب المخالفة للشرع الشريف كالأشياء التي لم يبحها كالغصب والسرقة والخيانة , والقمار وعقود الربا { ومن يفعل ذلك عدوانا } أي إفراطا في التجاوز عن الحد , وإتيانا بما لا يستحقه { فسوف نصليه نارا } ( تفسير أبي السعود في سورة النساء ) . وقد ورد في آية جليلة أخرى { أكالون للسحت } أي الحرام كالرشوة من ( سحته ) إذا استأصله ; لأنه مسحوت البركة ( القاضي ) . السنة : قد ورد في السنة الشريفة حديث { لعن الله الراشي والمرتشي والرائش } والراشي : هو الدافع للرشوة . والمرتشي : هو الأخذ لها . والرائش : هو الواسطة بين الراشي والمرتشي..."

(ج: 4، ص: 536، ط: دار الكتب العلمية)

وفيه أيضا: 

"والرشوة هي المال الذي يدفع بشرط الإعانة أما الهدية فهي المال الذي يدفع بلا شرط الإعانة . والرشوة تقسم إلى أربعة أقسام : 1 - الرشوة المحرمة على الآخذ والمعطيكالرشوة التي تعطى للقاضي ليحكم له ويأثم المعطي في إعطاء الرشوة على ذلك الوجه , ولو كان محقا في دعواه ويأثم القاضي إذا حكم لذلك الرجل بناء على الرشوة التي أخذها , ولو كان الراشي محقا في دعواه ويكون ملعونا..."

(ج: 4، ص: 536، ط: دار الكتب العلمية) 

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144606101241

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں