بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق تین ہی ہیں


سوال

میں نے اپنے حالات بتا کر جامعہ ہذا  میں سوال جمع کرایا تھا،اس میں تین طلاق کا   فتوی آیا اور مجھے بیوی سے علیحدہ ہونے کا کہا ،ہم علیحدہ ہو گئے ہیں ،ابھی ہم نے ایک ہونا ہے؛ کیوں کہ میری عمر 57 سال اور میری بیوی کی عمر 52 سال ہے ،ہماری کوئی اولاد بھی نہیں ہے،ہم عمر کے اس حصہ میں کافی پریشان ہیں ،ہماری راہ نمائی فرمائیں کہ ہم کیا کریں ، اہل حدیث والے کہہ رہے  ہیں کہ آپ ایک ہو سکتے ہیں ،صرف نکاح اور مہر ادا کرنا ہوگا، آپ ہماری راہ نمائی فرمائیں کہ ہم کیا کریں ،ابھی ہم بالکل اکیلے ہیں ۔

جواب

واضح رہے  کہ تین طلاقیں خواہ ایک ساتھ دی جائیں یا علیحدہ علیحدہ دی جائیں بہر صورت تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ قرآن کریم، احادیث مبارکہ، اقوال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین  کی روشنی میں  چاروں ائمہ کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی)  کے نزدیک بالاتفاق تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ اکٹھی دی گئی تین طلاقوں کو ایک طلاق قرار دینا صریح گمراہی ہےجس پر عمل کرنا قطعاً جائز نہیں،بصورتِ  دیگر ساری زندگی گناہ میں گزرے گی۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"و ذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث."

(کتاب الطلاق، ص/233، ج/3، ط/سعید)

 صورتِ  مسئولہ  میں سائل کی بیوی پر شرعاً تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں،  نکاح ختم ہو چکا ہے ، اب  رجوع یا  تجدید نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔سائل کی بیوی  عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک)گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔ البتہ عدت گزارنے کے بعد سائل کی بیوی  اگر کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور وہ اس سے صحبت (ہم بستری ) کرے اس کے بعد وہ دوسرا شخص سائل کی بیوی کو طلاق  دے دے یا اس کا انتقال ہو جائے تو اس کی عدت گزار کر سائل کی بیوی سائل سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے۔

نوٹ :تین طلاقوں  کو ایک قرار دینے کے رد   سے متعلق تفصیلی فتوی ساتھ منسلک ہے،ملاحظہ فرمالیں  ۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و إن کان الطلاق ثلاثًا في الحرۃ و ثنتین في الأمة، لم تحلّ له حتی تنکح زوجًا غیرہ نکاحًا صحیحًا، و یدخل بها، ثمّ یطلقها أو یموت عنها"

(الباب السادس في الرجعة، فصل فیما تحل به المطلقة، کتاب الطلاق  ص:۴۷۳  المجلد الاول، مکتبہ رشیدیہ) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100694

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں