بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹی وی رکھنا اور دیکھنا


سوال

1. میرا ایک بیٹا ہے جو کہ 20 یا 21 سال کا ہے، اس نے گھر میں ٹی وی لگا لیا ہے، جب کہ گھر میں نوجوان لڑکی بھی موجود ہے، اور گھر میں میرے ساتھ امداد بھی نہیں کرتا اور اس کی والدہ بھی ٹی وی کو چالو کرتی ہے، جب میں کہتا ہوں کہ بند کر لو تو وہ لوگ بات نہیں مانتے ہیں۔

پوچھنا یہ ہے کہ گھر میں ٹی وی رکھنا جائز ہے؟ جب کہ اس سے فلم وغیرہ دیکھی جاتی ہے، اور ٹی وی لگانے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

2. بیٹا اور اس کی والدہ میری بات نہیں مانتے ہیں، شریعتِ مطہرہ کا اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ترغیب و ترہیب کے ساتھ جواب مطلوب ہے۔ 

جواب

1. ٹی وی کا گھر میں رکھنا اور دیکھنا ام الخبائث ہے، ٹی وی نے مسلمانوں کے گھروں کو سنیما ہال میں تبدیل کر دیا ہے، مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ٹی وی دیکھنے کے کئی مفاسد شمار کروائے  ہیں، جو یہ ہیں:

آلہ معصیت کا استعمال، اس کی خریداری پر مال ضائع کرنا، تصویر سازی، تصویر بینی، تصویر نمائی، ملائکہ رحمت سے دوری، استحقاقِ لعنت، کفار سے مشابہت، مردوں کا غیر محرم عورتوں کو دیکھنا، غیر محرم عورتوں کی آواز سننا، عورتوں کا غیر محرم مردوں کو دیکھنا، بلا ضرورت غیر محرم مردوں کی آواز سننا، پہلوان،  تیراک اور کھلاڑی عموماً نیم برہنہ ہوتے ہیں، انہیں دیکھنے کا گناہ۔

اس کے علاوہ  ٹی وی موسیقی اور گانے سننے کا گناہ باعث بنتا ہے، حیاء و غیرت کا جنازہ نکال دیتا ہے، دل پر کدورت اور سیاہی کے چھانے کا سبب بنتا ہے، گناہ کی قباحت و شناعت کو دل سے نکال دیتا ہے، وقت ضائع کرواتا ہے، دماغی صلاحیتوں اور بینائی کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔

اب ٹی وی کا گھر میں رکھنا اور دیکھنا چونکہ کئی مفاسد اور گناہوں کا مجموعہ ہے؛ اس لیے گھر میں ٹی وی کا رکھنا اور اس کا دیکھنا قطعاً ناجائز ہے۔

2. اگر سائل اپنی بیوی اور بیٹی کو ٹی وی کی شناعت سے متعلق سمجھاتا ہے اور وہ اس کی بات نہیں مانتے تو وہ گناہ گار ہوں گے، اُن کو چاہیے کہ سائل کی فرمانبرداری  کریں، باپ اور شوہر کی نافرمانی کرنا سخت گناہ کا کام ہے۔

باقی جہاں تک یہ مسئلہ ہے تو سائل کا بیٹا اُس کے ساتھ امداد نہیں کرتا تو  اس کا جواب ہے کہ اگر سائل کی آمدنی کا کوئی ذریعہ موجود ہویا اس کے پاس جمع پونجی ہو،تو سائل پر اسی میں سے اپنے نان ونفقہ کا انتظام کرنا لازم ہوگااور اگر سائل کی آمدنی کا کوئی ذریعہ موجود نہ ہو اور کوئی جمع پونجی بھی نہ ہو،تو اس کی صاحب ِ حیثیت اولادپر اس کے نان ونفقہ کا انتظام کرنا برابر سرابر لازم ہوگا۔

حدیثِ مبارک  میں  ہے:

"وعن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أشد الناس عذاباً يوم القيامة الذين يضاهون بخلق الله»."

(مشكاة المصابيح (2/385، باب التصاویر، ط: قدیمي) 

ترجمہ: "حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن سب لوگوں سے زیادہ سخت عذاب  ان لوگوں کو ہوگا جو تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔"

(مظاہر حق جدید (4/229)  ط: دارالاشاعت)

ایک اور حدیثِ مبارک  میں ہے:

"عن عبد الله بن مسعود قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «أشد الناس عذاباً عند الله المصورون"۔

(مشكاة المصابيح (2/385، باب التصاویر، ط: قدیمي)

ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ترین عذاب کا مستوجب، مصور (تصویر بنانے والا)ہے"۔

(مظاہر حق جدید (4/230)  ط: دارالاشاعت)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أبي طلحة، رضي الله عنه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «‌لا ‌تدخل ‌الملائكة بيتا فيه كلب ولا تصاوير"۔

(کتاب اللباس، باب التصاویر، 167/7/ السلطانیہ)

امداد الفتاویٰ میں ہے:

"... اگرچہ اس تصویر کی طرف کوئی امر مکروہ بھی منسوب نہ کیا گیا ہو، محض تفریح و تلذذ ہی کے لیے ہو، کیونکہ محرمات شرعیہ سے تلذذ بالنظر بھی حرام ہے:

في الدر المختار كتاب الأشربة: و حرم الانتفاع بها (أي بالخمر) و لو لسقي دواب أو لطين أو نظر للتلهي."

(رسالہ تصحیح العلم فی تقبیح الفلم، جلد چہارم صفحہ 258)

نیز  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"عن أبی هریرة، عن النبي صلی الله علیه و سلّم قال: لو کنت آمرًا أحدًا أن یسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها."

(جامع الترمذي: ۱/۲۱۹، أبواب الرضاع والطلاق، باب ما جاء في حق الزوج علی المرأة)

ترجمہ:"اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔"

الدرالمختار مع رد المحتار میں ہے:

"(و) تجب (على موسر) ولو صغيرا (يسار الفطرة) على الأرجح...(النفقة لأصوله)۔۔۔(الفقراء) ولو قادرين على الكسب

(قوله ولو قادرين على الكسب) جزم به في الهداية، فالمعتبر في إيجاب نفقة الوالدين مجرد الفقر"

(کتاب الطلاق،باب النفقة،ج:3،ص621،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100748

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں