بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹی وی اور کیمرے کی ریپیرنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی کا حکم


سوال

ٹی وی اور کیمرہ ریپئرنگ کے کام کی آمدنی کا کیا حکم ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ ٹی وی  کا استعمال عمومًا ناجائز کاموں میں(یعنی فلموں اور ڈراموں وغیرہ کے دیکھنے کے لیے) ہوتا ہے، نیز جاندار کے تصاویر پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس کا استعمال جائز ہی نہیں ہے، اس وجہ سے اس کی ریپیرنگ کرنا اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی (اجرت)  حرام ہے۔

باقی رہا  کیمرے کی ریپیرنگ(مرمت) اور اس کی اجرت کا حکم، تو ملحوظ رہے کہ کیمرے کا استعمال معصیت کے کاموں کے لیے متعین نہیں ہوتا، اس کا استعمال جس طرح ناجائز کاموں کے لیے ہوتاہے اسی طرح جائز اور مباح کاموں میں بھی ہوتاہے، کیوں کہ اس کے ذریعے  غیرجاندار کی تصویر وغیرہ بھی کھینچی جاتی ہے، اس لیے نفس کیمرے کی مرمت اور اس سے حاصل ہونے والی اجرت جائز ہے،تاہم جو لوگ کیمرے کا استعمال ناجائز کاموں میں کرتے ہیں تو وہ لوگ کیمرے کو  غلط کاموں میں استعمال کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے۔

تاوی شامی میں ہے:

وماکان سببا لمحظور محظور... ونظیره کراهة بیع المعازف لان المعصیة تقام بها عینها.

(ردالمحتارعلی الدر المختار، ج:4، ص:268، ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

وهذا يفيد أن آلة اللهو ليست محرمة لعينها، بل لقصد اللهو منها إما من سامعها أو من المشتغل بها وبه تشعر الإضافة ألا ترى أن ضرب تلك الآلة بعينها حل تارة وحرم أخرى باختلاف النية بسماعها والأمور بمقاصدها.

(كتاب الحضر والاباحة، ج:6، ص:350، ط:ايج ايم سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

الإجارة على الحمل وهو ليس بمعصية، ولا سبب لها وإنما تحصل المعصية بفعل فاعل مختار.

(فصل فى البيع، ج:6، ص:392، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144110201490

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں