بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تت تو تلات سے طلاق کا حکم


سوال

بندے نے جامعہ بنوریہ کی ویب سائٹ پر طلاق کا ایک مسئلہ پڑھا جس میں طلاق دینے والے کے منہ پر دوران تکلم ہاتھ رکھ دئے جانے کا تذکرہ تھا ۔ مسئلہ پڑھنے کے کچھ دیر بعد فوراً ہی پتا نہیں مجھے کیا ہوا کہ میں خود بھی اس کی نقالی میں اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اور اپنی زبان کو اپنے جبڑوں میں دبا کر انشاء طلاق کی نیت کے بغیر " اس کو طلاق " بولنے کی کوشش کرنے لگا ۔ لیکن زبان سے نہ کچھ ادا ہوا اور نہ ہی میں نے کچھ سنا ۔ اس کے تقریباً ڈیڑھ دن بعد دوپہر کو میں برائے قضاء حاجت بیت الخلاء گیا تو واپس وہاں بھی اسی طرح منہ پر ہاتھ رکھ کر اور زبان جبڑوں میں دبا کر بغیر نیت انشاء طلاق کے تین بار واپس " اس کو طلاق " بولنے کی کوشش کرنے لگا ، مجھ کو سابقہ تجربے کی بنیاد پر اعتماد تھا کہ کچھ ادا نہ ہوگا لیکن ابکی بار سبقت لسانی سے کچھ الفاظ اداء ہوئے اور میرے کان میں " اُتْ تُوْ تَلَا " ( لام کے بعد کچھ نہیں ) کے الفاظ سنائی دیے ۔ میں یہ سن کر گھبرا گیا اور اسی بوکھلاہٹ میں اس بات کی تحقیق کی غرض سے کہ مذکورہ کیفیت سے کیا الفاظ ادا ہوتے ہیں ؟ میں نے سابقہ کیفیت سے صرف " اس کو " بولنے کی کوشش کی تو " اُتْ تُوْ " ادا ہوا ۔ اس کے ایک سیکنڈ بعد اسی کیفیت سے " طَ " بولنے کی کوشش کی تو " تَ " سنائی دیا ، پھر سیکنڈ بعد " لَا " بولنے کی کوشش کی تو " لَا " سنائی دیا اور اس کے ایک سیکنڈ بعد " قَ " بولنے کی کوشش کی تو بہت مشکل سے ادا ہوا اور اس کے بعد " کَ " بولنے کی کوشش کی تو وہ بھی بڑی مشکل سے ادا ہوا ۔ اس تجربے سے مجھے علم ہوا کہ " ق " یا " ک " تو ادا ہی نہیں ہوا ۔ لیکن ابھی تک مجھے اطمینان نہ ہوا اور اسی تجربے کی دھن میں کہ کیا الفاظ ادا ہوتے ہیں اسی سابقہ کیفیت یعنی منہ پر ہاتھ رکھ کر اور دونوں جبڑے ملا کر بغیر نیت انشاء طلاق کے ١٥ سے ٢٠ مرتبہ بیوی کی غیر حاضری میں " اس کو طلاق " بولنے کی میں نے کوشش کی تو مجھے ہر بار " اُتْ تُوْ تَلَاتَ " سنائی دیا ۔ ( نوٹ : فقہاء نے وقوع طلاق کے لیے نسبت الی الزوجہ کو شرط قرار دیا ہے تو سوال یہ ہے کہ نقالی کرتے وقت جو الفاظ بار بار زبان سے ادا ہوئے " ات تو تلات " اس میں لفظ " اُتْ تُوْ " سے بیوی کی طرف کیا شرعی اعتبار سے نسبت ہوگی یا نہیں ؟ ) میں اس وقت ذہنی پریشانی اور ڈپریشن میں گھرا ہوا تھا ۔ مجھے کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ میں کیا کر رہا ہو ۔ ایسی حالت میں میرے دماغ میں یہ بات آئی کہ اس مذکورہ کیفیت سے " اس کو طلاق " بولنے پر مجھے تو " اُتْ تُوْ تَلَاتَ " سنائی دیتا ہے لیکن یہ بھی تو معلوم کریں کہ سامنے والے کو کیا سنائی دیتا ہے ؟ ہو سکتا ہے یہ جو مجھے سنائی دے رہا ہے میرا اپنا خیال و گمان ہو ؟ پھر یہ سوچ میرے دل و دماغ میں گردش کر ہی رہی تھی کہ اسی دن رات کو اپنی بیوی سے میں فون پر بات کر رہا تھا کہ میرے دل میں یہ بات آئی کہ کتب میں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص بیوی کے سامنے کسی دوسرے کے الفاظ طلاق کی حکایت کرے تو طلاق واقع نہیں ہوتی ، تو میں نے اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات معلوم کرنے کی غرض سے کہ اس سابقہ کیفیت کی نقالی کرتے ہوئے " اس کو طلاق " بولنے پر سامنے والے کو کیا سنائی دیتا ہے ؟ میں نے فون ہی پر بیوی سے کہا کہ میں منہ بند کر کے اور منہ پر ہاتھ رکھ کر ایک جملہ بولتا ہوں ۔ تم کو کیا سنائی دیتا ہے مجھے بتاؤ ۔ بیوی : جی ٹھیک ہے ۔ میں : " اُتْ تُ تَلَاتَ ، تُتْ تُ تَلَاتَ ، تُتْ تُ تَلَاتَ"----------- نوٹ : یہ جو الفاظ ہیں وہ مجھے سنائی دیے اس کے مطابق ہیں ۔ میں نے اس سے پہلے اس جملے کو منقولہ بنانے کے لیے " زید نے کہا " بولنے کا ادارہ بھی کیا تھا لیکن عجلت میں بھول گیا ۔ اور سبقت لسانی میں دو مرتبہ " اُتْ تُ " کے بجائے " تُتْ تُ " سبقت لسانی سے ادا ہو گیا ۔ میں ( بیوی سے پوچھتے ہوئے ) : کچھ سنائی دیا ؟ بیوی : نہیں ۔ کچھ بھی سمجھ میں نہیں آیا ۔ میں : واپس بولتا ہوں ۔ سنو ۔ " اُتْ تُ تَلَاتَ ، تُتْ تُ تَلَاتَ ، تُتْ تُ تَلَاکْ" نوٹ : اس بار بھی نقالی کرتی ہوئے سبقت لسانی سے دو مرتبہ " اُتْ تُ " کے بجائے " تُتْ تُ " اور ایک مرتبہ " تَلَاتَ " کے بجائے " تَلَاکْ " سبقت لسانی سے ادا ہو گیا ۔ میں ( بیوی سے پوچھتے ہوئے ) : اب کچھ سنائی دیا ؟ بیوی : کچھ نہیں ۔ یہ بتاو آپ کیا کر رہے تھے ؟ میں : ارے وہ ایک مسئلہ آیا تھا کہ اگر کوئی شخص منہ بند کر کے طلاق کے الفاظ بولے تو کیا سنائی دیتا ہے یہ معلوم کرنا تھا ۔ بیوی ( تعجب سے ) : اچھا ایسے مسائل بھی لوگ پوچھتے ہیں ! نوٹ : بیوی کے ساتھ جنتی بات چیت فون پر ہوئی یہ اس کی پوری تفصیل ہے ۔ اس بات کے دوران کبھی بھی میری نیت اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نہیں ہوئی تھی ۔ میں تو بس جاننا چاہتا تھا کہ اس کیفیت سے نقالی کرتے ہوئے " اس کو طلاق " بولنے پر سامنے والے کو کیا سنائی دیتا ہے ؟ نوٹ : میں نے شامی ، البحر الرائق وغیرہ کتابوں میں یہ جزئیہ پڑھا ہے کہ وقوع طلاق کے لیے نسبت الی زوجہ صراحتاً یا دلالتًا ضروری ہے ۔ اور آپ ہی کے ادارے سے شائع ہونے والی مفتی شعیب عالم صاحب کی کتاب " الفاظ طلاق کے اصول " کا مطالعہ بھی کیا خصوصاً " صریح سے دیانتًا عدم وقوع " ، " صریح سے قضاءً عدم وقوع " اور " اضافت کا بیان " بغور پڑھا ۔ میں نے خود بھی پورے مسئلہ میں غور و خوض کیا تو میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میرے مسئلہ میں طلاق کا تکلم تو ہوا ہے لیکن صراحتاً یا دلالتًا نسبت الٰی الزوجہ کا کوئی قوی قرینہ موجود نہیں ۔ بلکہ اس کے خلاف چند قرینے میری اصل نیت پر موجود ہیں ۔ (١) ایک تو بیوی سے گفتگو کرنے سے پہلے میں نے کہا تھا " میں منہ بند کر کے اور منہ پر ہاتھ رکھ کر ایک جملہ بولتا ہوں ۔ تم کو جو سنائی دیتا ہے مجھے بتاؤ ۔ " (٢) اور دوسرا میرا بیوی سے ہر بار پوچھا " کچھ سنایا ؟ " (٣) اور اخیر میں میرا وضاحت کرتے ہوئے یہ کہنا " ارے وہ ایک مسئلہ آیا تھا کہ اگر کوئی شخص منہ بند کر کے طلاق کے الفاظ بولے تو کیا سنائی دیتا ہے یہ معلوم کرنا تھا " ان سب باتوں کے پیش نظر تو طلاق نہیں ہونی چاہیے ۔ ہو سکتا ہے کہ میری رائے غلط بھی ہو ؟ اس کے نعد مجھے افسوس بھی ہوا کہ میں نے اپنی نادانی میں کیا کر دیا ۔ اب آپ اپنا فیصلہ سنائیں کے کتنی طلاق واقع ہوئیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی ذکر کردہ صورتِ حال اگر واقعۃ درست ہو تو مذکورہ الفاظ"اُتْ تُ تَلَاتَ ، تُتْ تُ تَلَاتَ ، تُتْ تُ تَلَاتَ ۔۔۔اُتْ تُ تَلَاتَ ، تُتْ تُ تَلَاتَ ، تُتْ تُ تَلَاتَ  "بیوی کو فون پر کہنے سے طلاق واقع نہیں ہو ئی ہے، لیکن ان الفاظ"تت تو تلاک" سے ایک طلاقِ رجعی واقع ہو گئی ہے، شوہر کو  دورانِ عدت رجوع کا حق حاصل ہے، رجوع کرنے کی صورت میں شوہر کو آئندہ صرف دو طلاقیں دینے کا اختیار ہو گا ۔

نوٹ: اس طرح کے الفاظ  سے تجربہ اور نقالی کرنا لایعنی اور عبث کام ہے جس کی وجہ سےکبھی کبھارمعاملہ تین   طلاق تک  پہنچ جاتا ہے ،اس لیے اس طرح کے الفاظ کہنے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔

فتح القدیر میں ہے:

"وطلاغ، وطلاك، وتلاك. ويقع به في القضاء ولا يصدق إلا إذا أشهد على ذلك قبل التكلم بأن قال: امرأتي تطلب مني الطلاق وأنا لا أطلق فأقول هذا ويصدق ديانة."

(باب إيقاع الطلاق، ج: 4، ص: 7، ط: دار الفكر بيروت)

البحر الرائق میں ہے:

"ومنه الألفاظ المصحفة وهي خمسة: ‌تلاق وتلاغ وطلاغ وطلاك وتلاك فيقع قضاء ولا يصدق إلا إذا أشهد على ذلك قبل التكلم بأن قال امرأتي تطلب مني الطلاق وأنا لا أطلق فأقول: هذا ولا فرق بين العالم، والجاهل وعليه الفتوى."

(باب ألفاظ الطلاق، ج: 3، ص: 271، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101194

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں