بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکی زبان میں نام رکھنا


سوال

اگر میں اپنی بیٹی کا نا م  عربی میں نہیں بلکہ ترکی زبان میں رکھ دوں تو کیا درست ہوگا اور جس کا معنی بھی صحیح ہو ؟یعنی : اصلحان۔

جواب

واضح رہے کہ بچوں کے نا م سے متعلق شریعت کی   تعلیم یہ ہے کہ   انبیاءِ کرام علیہم السلام یا صحابہ  کرام رضی اللہ عنہم یا اللہ کے نیک بندوں کے ناموں پر نام رکھا جاۓ یا  ایسا نام رکھا جاۓجو  اچھے معنی والا ہو،  خاص عربی زبان کا نام  رکھنا ضروری نہیں ہے،لیکن بہتر ہے ۔

لہذا صورت  مسئولہ میں   اگر ترکی زبا ن کے ایسے لفظ سے نام رکھنا چاہیں جس کے معنی  صحیح ہوں تو   رکھ سکتے ہیں ، البتہ بہتر یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین  کے  ناموں میں سے کوئی نام رکھ لیں ،یا عربی زبان کے اچھے معنی والے لفظ سے نام رکھیں ۔

وفي شعب الإيمان:

 "عن أبي سعيد، وابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه، فإذا بلغ فليزوجه فإن بلغ ولم يزوجه فأصاب إثما، فإنما إثمه على أبيه."

 (11/ 137الناشر: مكتبة الرشد)

مفہوم:"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس آدمی کا بچہ پیدا ہوتو اس کا اچھانام رکھے اور اچھی تربیت کرو،جب بالغ ہوجائے تو اس کی شادی کردے ،اگر بچہ بالغ ہوجائے اور وہ آدمی اس کی شادی نہ کرے اور بچہ گناہ میں مبتلا ہوجائے تو اس کا گناہ باپ پر (بھی ) ہوگا ۔"

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144405100588

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں