بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکی اور شام کے زلزلہ زدگان کو زکوۃ کی رقم سے مدد کرنے کا حکم اور ہسپتالوں کو زکوۃ دینا


سوال

1. دریافت کرنا تھا کہ کیا ترکی اور شام کے زلزلہ زدگان کو زکوة کی رقم بھیجی جاسکتی ہے ؟

2. اسی طرح کیا اسلامی ممالک کے ہسپتالوں کو مریضوں کے علاج کے لیے زکوة بھیجی جاسکتی ہے ؟ 

جواب

1. صورت مسئولہ  میں ترکی اور شام کے زلزلہ زدگان میں جو مسلمان ہیں اور سید نہیں ہیں، ان کی امداد میں زکوۃ کی رقم دی جا سکتی ہے اور جمع کرتے وقت اس بات صراحت بھی کر دینی  چاہیے کہ یہ زکوۃ کی رقم ہے؛ کیوں کہ زکوۃ کی رقم  زکوۃ کے مستحق افراد کو دینا ضروری ہے، اس کے بعد جمع کرنے والے ادارے یا فرد کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس رقم کو زکوٰۃ کے مصرف میں خرچ کرنے کا انتظام کرے۔

2۔مسلم ممالک کے ہسپتالوں کو زکوۃ دینے سے متعلق شرعی حکم کی تفصیل یہ ہے کہ زکوۃ ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ  اسے کسی زکوۃ کے مستحق شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے،  لہٰذا جو ادارہ یا ہسپتال  زکوۃ کے کسی مستحق مسلمان غیر ہاشمی (سید یا عباسی وغیرہ) کو زکوۃ کا مالک بناکر زکوۃ اسے دیتا ہو یا اس کی اجازت سے اس کے علاج کی مد میں خرچ کرتا ہو تو ایسے ہسپتال کو زکوۃ دینا درست ہے، اور جو  ہسپتال اس کا اہتمام نہ کرتاہو  جان بوجھ کر اسے زکوۃ دینا درست نہیں ہے اور جہاں شبہ ہو وہاں زکوۃ دینے کی بجائےخود مستحق تلاش کرکےاسے  یا کسی مستند دینی ادارے کو زکاۃ دی جائے۔

یاد رہے کہ زکوۃ کے مستحق سے مراد وہ شخص ہے جس کی ملکیت میں بنیادی ضرورت اور واجب الادا ءقرض و اخراجات منہا کرنے کے بعد  استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچتی ہو۔

قرآن کریم میں ہے:

"إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ"۔۔۔  [التوبة:60]

ترجمہ:” صدقات تو صرف حق ہے غریبوں کا اور محتاجوں کااور جو کارکن ان صدقات پر متعین ہیں اور جن کی دلجوئی کرنا ہے اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے قرضہ میں اور جہاد میں اور مسافروں میں یہ حکم اللہ کی طرف سے مقرر ہےاور اللہ تعالی بڑے علم والے بڑی حکمت والے ہیں۔“

بدائع  الصنائع میں ہے:

"وأما ركن الزكاة فركن الزكاة هو إخراج جزء من النصاب إلى الله تعالى، وتسليم ذلك إليه يقطع المالك يده عنه بتمليكه من الفقير وتسليمه إليه أو إلى يد من هو نائب عنه، وكذا لو دفع زكاة ماله إلى صبي فقير أو مجنون فقير وقبض له وليه أبوه أو جده أو وصيهما جاز؛ لأن الولي يملك قبض الصدقة عنه."

(کتاب الزکاۃ، فصل: رکن الزکاۃ، 2/ 39، ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره،

(قوله: تمليكا) فلا يكفي فيها الإطعام إلا بطريق التمليك ولو أطعمه عنده ناويا الزكاة لا تكفي ط وفي التمليك إشارة إلى أنه لا يصرف إلى مجنون وصبي غير مراهق إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضه كالأب والوصي وغيرهما ويصرف إلى مراهق يعقل الأخذ كما في المحيط قهستاني وتقدم تمام الكلام على ذلك أول الزكاة.

(قوله: كما مر) أي في أول كتاب الزكاة ط (قوله: نحو مسجد) كبناء القناطر والسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه زيلعي (قوله: ولا إلى كفن ميت) لعدم صحة التمليك منه؛ ألا ترى أنه لو افترسه سبع كان الكفن للمتبرع لا للورثة نهر ." 

(كتاب الزكوة، ج:2، ص:344، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407102121

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں