بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تجھے اس رشتے سے آزاد کرتا ہوں یہ جملہ کہنے سے کون سی طلاق واقع ہوتی ہے


سوال

زید نے اپنی بیوی کو مندرجہ ذیل تحریر لکھ کر بھیجی کہ آپ مجھے کل عید کے دن فون کرو گی اور مجھے سلام کرو گی اور مجھے عید مبارک کہو گی ،اس معاملے میں میں کسی بھی عذر کو قبول نہیں کروں گا تجھے اس دن فون کرنا ہی ہوگا اگر آپ نے فون نہیں کیا تو میں سمجھ لوں گا کے آپ کو مجھ سے زیادہ خود کے نخرے زیادہ پسند ہے اور آپ کے نزدیک میری اور اس رشتے کی کوئی عزت و اہمیت نہیں ہوگی ، اب آپ نے فون نہ کر کے یہ ثابت کر ہی دیا کہ آپ کو میری کوئی عزت نہیں ہے ؛"اس لیے مجھے اب اس رشتے میں نہیں رہنا" میں "تجھے اس رشتے(میاں بیوی ) سے آزاد کرتا ہوں" اور یہ بات میں پورے ہوش و حواس میں بول رہا ہوں ،"آپ چاہے تو آج سے یا ابھی سے اپنی عدت پوری کر سکتی ہو" ،رہی بات اپنی بیٹی کی اگر آپ پرورش کرسکتی ہو تو اپنے پاس رکھو اور نہیں کر سکتی تو مجھے دے دو اوراب مجھے یہ رشتہ باقی نہیں رکھنا،اب معلوم یہ کرنا ہے کہ بیوی کو مندرجہ بالا تحریر سے طلاق ہوگی یا نہیں ہوگی؟جب کہ اس نے اس دن فون بھی نہیں کیا تھا اگر طلاق ہوگئی تو کون سی ہوگی اور رجعت کی کیا صورت ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں "میں تجھے اس رشتے(میاں بیوی ) سے آزاد کرتا ہوں"،کہنے سے زید کی بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی ،نکاح ختم ہو گیا ، رجوع  جائز نہیں ، میاں بیوی اگر دوبارہ رہنے پر رضامند ہوں ، تو ایسی صورت میں شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر اور نئے ایجاب وقبول کے ساتھ باہمی رضامندی سے تجدیدِ نکاح کرسکتے ہیں ،تجدیدِ نکاح کی صورت میں آئندہ کے لیے شوہرکو دوطلاقوں کاحق حاصل ہوگا۔

"الفتاوى الهندية" میں ہے:

"ولو قال لها ‌لا ‌نكاح ‌بيني ‌وبينك أو قال لم يبق بيني وبينك نكاح يقع الطلاق إذا نوى."

(كتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات في الطلاق، ج:1، ص:375، ط:رشيدية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"بخلاف فارسية قوله ‌سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري اهـ ... فإن ‌سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي ‌سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق."

(کتاب الطلاق، باب الکنایات، ج:3، ص:299، ط:سعید)

وفيه أيضا:

"(وكونه التحق بالصريح للعرف بائن) ومرادفها كبتة بتلة (يصلح سبا، ونحو اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة . ‌والحاصل ‌أنه ‌لما ‌تعورف ‌به ‌الطلاق صار معناه تحريم الزوجة، وتحريمها لا يكون إلا بالبائن، هذا غاية ما ظهر لي في هذا المقام، وعليه فلا حاجة إلى ما أجاب به في البزازية من أن المتعارف به إيقاع البائن، لما علمت مما يرد عليه."

(کتاب الطلاق، باب الکنایات فی الطلاق، ج:3، ص:300، ط:سعيد)

"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع" میں ہے:

"وأما حكم الطلاق البائن .... فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد."

(كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، ج:3، ص:187، ط:دار الكتب العلمية)

"البحر الرائق شرح كنز الدقائق" میں ہے:

"وفي فتح القدير وأعتقتك مثل أنت حرة، وفي البدائع كوني حرة أو اعتقي مثل أنت حرة ككوني طالقا مثل أنت طالق."

(کتاب الطلاق، باب الکنایات فی الطلاق، ج:3، ص:325، ط:دارالکتاب الاسلامی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف، (قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحا لأنه صار فاشيا في العرف في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية."

(‌‌كتاب الطلاق، باب صریح الطلاق، ج:3، ص:252، ط:سعید)

وفيه أيضا:

"(قوله لا يلحق البائن البائن) المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية لأنه هو الذي ليس ظاهرا في إنشاء الطلاق كذا في الفتح، وقيد بقوله الذي لا يلحق إشارة إلى أن البائن الموقع أولا أعم من كونه بلفظ الكناية أو بلفظ الصريح المفيد للبينونة كالطلاق على مال."

(کتاب الطلاق، باب الکنایات، ج:3، ص:308، ط:سعید)

"الفتاوى الهندية" میں ہے:

"إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها."

(کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، ج:1، ص:472، ط: رشيدية)

"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع" میں ہے:

"وأما إن كان أحدهما حرا، والآخر مملوكا فإن كانا حرين فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ولا يصح ظهاره، وإيلاؤه ولا يجري اللعان بينهما ولا يجري التوارث ولا يحرم حرمة غليظة حتى يجوز له نكاحها من غير أن تتزوج بزوج آخر؛ لأن ما دون الثلاثة - وإن كان بائنا - فإنه يوجب زوال الملك لا زوال حل المحلية."

(کتاب الطلاق، فصل فی بیان حکم الطلاق البائن، ج:3، ص:187، ط:دار الکتب العلمیة)

فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:

"آزاد کرنا " یا "آزاد پھرنا" کو حضرت تھانویؒ نے فتاویٰ میں صریح لکھا ہے (امدادالفتاویٰ ۔ کتاب الطلاق) ، لیکن گجرات کا عرف اس بارے میں کیا ہے ، بعض گجراتی عرف سے واقفین کی رائے ہے کہ یہاں کے عرف میں کنایہ ہے ، لہذا آپ کی رائے اس بارے میں کیا ہے؟

(الجواب) : بندہ کی رائے یہ ہے کہ لفظ آزاد کردی بھی مانند گزاشتم و چھوڑ دی کے ملحق بصریح ہے۔"

(کتاب الطلاق، باب ما یتعلق باالکنایہ، "آزاد" کردی بحکم صریح ہے، ج:8، ص:303، ط:دارالاشاعت)

احسن الفتاویٰ میں ہے:

"تیسرا جملہ (میں نے آزاد کردیا) طلاقِ صریح بائن ہے ، لہذا اس سے طلاق کی نیت ہو یا نہ ہو بہر حال ایک طلاقِ بائن ہوگئی۔"

(کتاب الطلاق، جاؤ ، چلي جاؤ ،آزاد كرديا، ج:5، ص:202، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100677

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں