دومہینے پہلے میں نے اپنی بیوی کو فون پر کہا کہ :میں اپنے پورے ہوش و حواس میں تمہیں اس رشتے سے فارغ کرتا ہوں ، طلاق کی نیت سے یہ جملہ کہا تھا، یہ الفاظ صرف ایک ہی بار کہے تھے ، اب باہمی رضامندی سے ہم میاں بیوی ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں، اور اپنی غلطی کی تلافی کرنا چاہتے ہیں ، اب شرعًا کیا حکم ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے اپنی بیوی کو طلاق کی نیت سے یہ کہا کہ "میں اپنے پورے ہوش و حواس میں تمہیں اس رشتے سے فارغ کرتا ہوں " تو اس سے بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے،نکاح ٹوٹ چکاہے،عدت کے اندر یا عدت (حمل نہ ہونے کی صورت میں تین ماہواریوں) کے بعد دونوں باہمی رضامندی سے دو گواہوں کی موجودگی میں تجدیدِ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں،تجدیدِ نکاح کی صورت میں (اگر اسے پہلے کوئی طلاق نہیں دی ہے تو)آئندہ سائل کوصرف دو طلاق کااختیارحاصل ہوگا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
" ومایصلح جواباً وشتماً خلیة ،بریة، بتة،بتلة، بائن حرام ۔۔۔۔ ففی حالة الرضاء لایقع فی الفاظ کلها الإ بالنیة."
(كتاب الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات في الطلاق، ج:1، ص:374، ط:دار الفكر بيروت)
محیط برہانی میں ہے:
"إذا قال لها أنت خلية أو قال برية، أو قال بتة أو قال بائنة، وقال لم أنو به الطلاق فالأصل في جميع ألفاظ الكنايات أنه لا يقع الطلاق إلا بالنية."
(كتاب الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات، ج:3، ص:231، ط: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144601102387
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن