بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تم پانچ بجے تک گھر نہ آئی تو تمہیں طلاق کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

 جناب میں اپنی خالہ کو گود دی ہوئی ہوں اور اور خالہ خالو کو امی ابو کہتی ہوں،میں شادی شدہ ہوں اور میرے والدین (خالہ اور خالو)   میں اور شوہر ایک ساتھ رہتے تھے، میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے شوہر ایک عورت کو ہمارے گھر  لے  آئے  اور مجھ سے کہا کہ اس کا شوہر اس کے ساتھ ظلم کرتا ہے  اور  یہ اس سے تنگ آگئی ہے  اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ، اور  اس عورت کے گھر والے بھی اس کی مدد نہیں کررہے تو  یہ بھاگ کے ہمارے پاس آگئی کہ میں اب نہیں جاؤں گی۔ تو میں نے بھی اپنے شوہر کی بات مانتے ہوۓ اس کی مدد کی وجہ سے اس کو گھر میں رکھا، لیکن پھر مجھے کچھ غلط محسوس ہونے لگا ،پھرایک دن میرا سگا بھائی گھر آیا تو اس نے بھی دیکھا کہ یہ صحیح نہیں ہو  رہا۔ میرے شوہر اس عورت کو لے کے کہیں چلے گۓ کہ میں اس کی مدد کروں گا، اور کہیں  ایسی جگہ اس کو چھوڑ   دوں گا جہاں یہ محفوظ رہے اور پھر میں واپس آجاؤں گا، اور پھر میرا بھائی  مجھے اور شوہر کو یہ کہہ کہ مجھے اپنے ساتھ لے گیا کہ دو دن کے لیے چلو طبیعت ٹھیک ہو جاۓ تو  واپس آجانا، لیکن اس کے بعد میرے گھر والوں نے مجھے شوہر کے پاس نہیں جانے دیا ۔ میرے شوہر مجھے لینے میرے گھر آگئے، باتوں باتوں میں بات آگے بڑھی تو میرے شوہر نے مجھے سب کے سامنے کہا کہ اگر تم پانچ بجے تک گھر نہیں آئی تو میری طرف سے تمہیں طلاق۔  (میرے گھر والوں کا کہنا ہے کہ میرے شوہر نے تین بار یہ جملہ کہا ہے، لیکن میں اتنی پریشانی میں  مبتلا  تھی  مجھے ایک بار کا تو یاد ہے،  لیکن اور نہیں پتا)  اور  مجھے گھر والوں نے جانے ہی نہیں دیا  تواصل میں، میں پوچھنا یہ چاہ رہی تھی کہ یہ طلاق ہوئی یا نہیں؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں  سائلہ  کے  شوہر   کے   ان الفاظ   :"تم پانچ بجے تک گھر نہیں آئی تو میری طرف سے تمہیں طلاق"  کہنے سے طلاق معلق ہوگئی تھی،  اگر سائلہ اس مقررہ   وقت میں شوہر کے گھر نہیں گئی  اور شوہر نے  مذکورہ  الفاظ  تین مرتبہ  کہے ہوں (جیسا کہ سائلہ  کے گھر والوں کا کہنا ہے۔  اور شوہر بھی تین مرتبہ کہنے کو تسلیم کرتا ہو  اگرچہ سائلہ کو ایک سے زائد کے بارے میں پتا نہیں ہے)  تو تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں ، دونوں کا نکاح ختم ہوچکا ہے، رجوع جائز نہیں ہے۔

اور اگر شوہر  تین مرتبہ کہنے کو تسلیم نہ کرتا ہو ، بلکہ شوہر کا بیان اہلِ  خانہ سے مختلف ہےتو پھر  طلاق کا حکم بھی مختلف ہو گا۔ ایک یا دو مرتبہ کہنے  کی صورت میں دورانِ عدت  رجوع کا حق حاصل ہے، رجوع کر لینے سے نکاح برقرار  رہے گا، اور اگر رجوع نہیں کیا تو نکاح ختم ہو جائے گا۔ البتہ ایک یا دو مرتبہ کہنے  کے  بعد دوران عدت رجوع نہ کرنے کی صورت میں  اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہوں تو نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں تجدید نکاح کی اجازت ہوگی۔

اگر سائلہ کے شوہر اور گھروالوں کا بیان مختلف ہے تو دونوں فریقوں کو چاہیے  کہ کسی مستند دار الافتاء میں حاضر ہوکر بالمشافہہ کسی مفتی صاحب سے فیصلہ کروالیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة،فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج: 1، صفحہ: 473، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200172

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں