بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تم نے میرے ساتھ ایک مہینہ تک بات کی یا میرے نزدیک آئی تو تم میری بیوی نہیں ہوں گی کہنے کا حکم


سوال

اگر کوئی اپنے بیوی سے غصے میں یہ الفاظ کہے تم نے میرے ساتھ ایک مہینے تک بات کی یا میری نزدیک آئی  تو تم میری بیوی نہیں ہو گی، طلاق کا کوئی خیال نہ ہو، اگر ایک مہینہ کے اندر بیوی نے بات کی یا اس کےنزدیک آگئی تو کیا ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ "تم میری بیوی نہیں ہوں گی " طلاق کا کنائی لفظ ہے ،جس سے بغیر نیت کے طلاق واقع نہیں ہوتی ؛لہذا صورت ِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص یہ الفاظ اپنی بیوی کو غصہ میں کہے کہ " تم نے میرے ساتھ ایک مہینہ تک بات کی یا میرے نزدیک آئی تو  تم  میری بیوی نہیں ہوں گی "اور اس سے طلاق کی نیت نا ہو اور ایک  مہینہ کے اندر بیوی بات کرے یا شوہر کے نزدیک آجائے تو اس سے اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی ۔

درر الحکام میں ہے :

"(لست لي بامرأة) يعني أن قول الزوج لامرأته: لست لي بامرأة(و) كذا قوله لها: أنا (لست لك) بزوج (طلاق بائن إن نواه) ، وقالا: لا يكون طلاقا؛ لأنه نفى النكاح وهو لا يكون طلاقا، بل كذبا لكون الزوجية معلومة فصار كما لو قال: لم أتزوجك أو سئل هل لك امرأة، فقال: لا ونوى الطلاق لا يقع فكذا هنا وله أن هذه الألفاظ تصلح لإنكار النكاح وتصلح لإنشاء الطلاق ألا يرى أنه يجوز أن يقول ليست لي بامرأة؛ لأني طلقتها كما يجوز أن يقول: ليست بامرأة؛ لأني ما تزوجتها فإذا نوى به الطلاق فقد نوى محتمل لفظه فيصح كما لو قال لا نكاح بيني وبينك".

(کتاب الطلاق،انواع الطلاق،ج؛1،ص:370،داراحیاء الکتب العربیۃ)

مبسوط سرخسی میں ہے :

"(قال) وإن قال لامرأته: لست لي بامرأة ينوي الطلاق فهو كما وصفت لك في الخلية والبرية في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وقال أبو يوسف ومحمد رحمهما الله تعالى: لا تطلق وهذا ليس بشيء لحديث عمر بن الخطاب - رضي الله تعالى عنه - قال إذا سئل الرجل ألك امرأة فقال: لا فإنما هي كذبة وهذا المعنى أنه نفى نكاحها ونفي الزوجية لا يكون طلاقا بل يكون كذبا منه لما كانت الزوجية بينهما معلومة كما لو قال لامرأته: والله ما أنت لي بامرأة أو علي حجة إن كانت لي امرأة أو ما لي امرأة، أو قال: لم أتزوجك لم يقع الطلاق بهذه الألفاظ وإن نوى وأبو حنيفة - رحمه الله تعالى - يقول: قوله لست لي بامرأة كلام محتمل أي لست لي بامرأة لأني فارقتك أو لست لي بامرأة لأنك لم تكوني في نكاحي وموجب الكلام المحتمل يتبين بنيته فلا تكون هذه الألفاظ طلاقا بغير النية ونية الطلاق تعمل فيه لأنه من محتملاته كما في قوله خلية برية."

(کتاب الطلاق ،باب ما تقع بہ الفرقۃ مما یشبہ الطلاق،ج؛6،ص:81،دارالمعرفۃ)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے :

"سوال:ایک شخص نے بحالت غصہ اپنی بیوی کو یہ الفاظ کہے کہ اب تو میری بیوی نہیں اور نہ آئندہ سے میں تجھ کو اپنی بیوی سمجھوں گا ۔اس صورت میں کیا حکم ہے ؟

جواب:اگر طلاق کی نیت سے شوہر نے یہ لفظ کہا ہے کہ اب تو میری بیوی نہیں ہے تو ایک طلاق بائنہ اس پر واقع ہوگئی اور اگر نیت طلاق کی نہ تھی تو طلاق واقع نہیں ہوئی ۔"

(کتاب الطلاق،ج:9،ص:256،دارالاشاعت)

فتاوی رحیمیہ میں ہے :

"شوہر کے یہ الفاظ "اب یہ عورت میری بیوی نہیں میری ماں بہن ہے"بہ نیت طلاق کہے گئے ہیں اس لئے طلاق بائن واقع ہوگئی ".

(کتاب الطلاق،ج:8،ص:300،دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100725

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں