میرے بہنوئی نے ایک دفعہ دو بچوں کی موجودگی میں میری بہن کو کہا "تو مجھ پہ حرام ہے" کیا یہ طلاق ہو گئی؟
واضح رہے کہ لفظ "حرام "طلاق کے بارے میں عرف کے اعتبار سے طلاق کا صریح لفظ بن چکا ہے،یعنی اس لفظ کے استعمال سے بغیر نیت کے بھی طلاقِ بائن واقع ہوجائے گی،لہذا صورت ِ مسئولہ میں سائل کے بہنوئی کا سائل کی بہن کو ایک دفعہ یہ کہنا کہ "تم مجھ پہ حرام ہو" اس سے سائل کی بہن پر ایک طلاق بائن واقع ہوکر دونوں کا نکاح ختم ہوچکاہے، سائل کی بہن عدت کے بعد کسی بھی جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے، لیکن اگر دونوں میاں بیوی ساتھ رہنا چاہتے ہوں تو نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنے کے بعد ساتھ رہ سکتے ہیں، اس صورت میں شوہر کے پاس آئندہ کے لیے صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے :
"ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف.
(قوله: فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحاً لا كنايةً، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن؛ لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحاً؛ لأنه صار فاشياً في العرف في استعماله في الطلاق لايعرفون من صيغ الطلاق غيره ولايحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفاً إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحاً كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية."
(کتاب الطلاق،باب صریح الطلاق،ج:3،ص:252،سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144410101550
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن