بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1445ھ 18 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آپ مجھ پر حرام ہو ، کہنے سے طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے


سوال

میں نے اپنی بیوی کو غصہ میں یہ کہہ دیا کہ "آپ مجھ پرحرام ہو"اس سے میرا مقصداپنی بیوی سے ہم بستری نہ کرنا تھا،میں نےطلاق کا نہ تو لفظ استعمال کیا اور نہ طلاق کی نیت تھی ،جھگڑا صرف یہ تھا کہ میں نے ایک بیوہ کی مالی مدد کی اور اس کے شوہر کے انتقال پر اس کے آفس کے مسئلہ پر مدد کرنی تھی۔

اب مجھے بتایا جائے کہ میری بیوی کا مجھ پر کیا رشتہ ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ لفظِ"حرام"صریح بائن طلاق  کا لفظ ہے،یعنی اس سے بغیر نیت کے طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے۔ 

لہذاصورتِ مسئولہ میں جب سائل نے اپنی بیوی کو یہ الفاظ کہےکہ"تم مجھ پر حرام ہو"تو اس سے اگر چہ سائل کی نیت اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نہیں تھی،بلکہ اس سے سائل کامقصد اپنی بیوی سے ہم بستری کرنےکو اپنے اوپر حرام کرنا تھا،تب بھی ان الفاظ کے کہنے کی وجہ سےسائل کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوچکی ہے ،یعنی سائل اوراس کی بیوی کے درمیان نکاح ختم ہوچکا ہے،اب دونوں کا ساتھ رہنا جائز نہیں۔

البتہ اگر دونوں دوبارہ ساتھ رہنے پر رضامند ہوں تو نیا نکاح ہو سکتا ہے،نئے نکاح کے بعدشوہر کے پاس آئندہ کے لیےدوطلاقوں کا اختیارہوگا۔

رد المحتار میں ہے:

"وإن ‌كان ‌الحرام في الأصل كناية يقع بها البائن لأنه لما غلب استعماله في الطلاق لم يبق كناية، ولذا لم يتوقف على النية أو دلالة الحال."

(کتاب الطلاق، باب الکنایات، ج:3، ص:299، ط:سعید)

الدر المختار میں ہے:

"ومن الألفاظ المستعملة: ‌الطلاق ‌يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف."

وفی الرد تحته:

"(قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر...كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية".

(کتاب الطلاق، باب صریح الطلاق، ج:3، ص252، ط:سعید)

احسن الفتاوی میں ہے:

"لفظ"حرام"طلاقِ صریح بائن ہے،اس سے بدونِ نیت بھی  طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے۔"

(ج:5،ص:184،ط:سعید)

امداد الاحکام میں ہے:

"سوال:اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ" تم میرے واسطے حرام ہوگئی"تو اس کا شرع میں کیا حکم ہے؟

جواب:صورتِ مسئولہ میں اس شخص کی بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی۔"

(ج:2،ص:463،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101952

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں