خاونداوربیوی کے درمیان کسی بات پر جھگڑے کی وجہ سے ناراضگی ہو جاتی ہے، خاوند کہتا ہے کہ تم ایک مہینے کے لیے مجھ پر حرام ہو، اس کا مطلب یہ تھا کہ میں ایک مہینے تک تم سے نہیں بولوں گا، کیا اس سے کوئی طلاق کی وجہ تو سامنے نہیں آتی؟
واضح رہے کہ ایلاء کے متحقق ہونے کے لیے شرعاً چار ماہ یا اس سے زائد عرصے تک یا مدت کی تعیین کیے بغیربیوی کے قریب نہ جانے کی قسم کھانا یا بیوی سےقریب جانے پر کسی فی نفسہ مشکل کام کو اپنے اوپر لازم کرلیناضروری ہے، اس کے بغیر شرعاً ایلاء نہیں پایا جاتا،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں شوہر کے اس جملے" تم ایک مہینے کے لیے مجھ پر حرام ہو" سے بیوی پر کسی قسم کی کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
ہدایہ میں ہے:
"فإن حلف على أقل من أربعة أشهر لم يكن موليا " لقول ابن عباس رضي الله عنه لا إيلاء فيما دون أربعة أشهر ولأن الامتناع عن قربانها في أكثر المدة بلا مانع وبمثله لا يثبت حكم الطلاق فيه."
(كتاب الطلاق،باب الإيلاء،411/2، ط:رحمانية)
فتح القدیر میں ہے:
"وشرطه محلية المرأة وأهلية الحالف وعدم النقص عن أربعة أشهر."
(كتاب الطلاق،باب الإيلاء،189/4،ط:ومطبعة مصفى البابي الحلبي)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"الإيلاء منع النفس عن قربان المنكوحة منعا مؤكدا باليمين بالله أو غيره من طلاق أو عتاق أو صوم أو حج أو نحو ذلك مطلقا أو مؤقتا بأربعة أشهر في الحرائر وشهر في الإماء من غير أن يتخللها وقت يمكنه قربانها فيه من غير حنث كذا في فتاوى قاضي."
(كتاب الطلاق،الباب السابع في الإيلاء،476/1،ط:رشیدیة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144411100106
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن