بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو فارغ کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

میری سالی کو اس کے شوہر نے طلاق کی نیت سے کہا  " تم میری طرف سے فارغ ہو " اس کے بعد دونوں نے کمرہ علیحدہ کرلیا، چار ماہ الگ رہے، ان چار ماہ میں تین ماہواریاں گزر گئیں،اس مدت میں نہ تو شوہر نے رجوع کیا اور اور نہ ہی تجدیدِ نکاح ہوا، اس  کے بعد پھر لڑائی ہوئی، شوہر نے پھر کہا " تم میری طرف سے فارغ ہو " اور کہا " گھر سے چلی جاؤ"۔ اس کے بعد میری سالی شوہر کے گھر سے چلی گئی، پھر آٹھ ماہ بعد شوہر سے کہا کہ میں گھر آرہی ہوں، شوہر نے جواباً میسج پر کہا " اگر آئی تو تم میری طرف سے فارغ ہو "لیکن میری سالی چلی گئی، اس کے بعد میرے سالے نے وہاں جا کر ان دونوں میں صلح کرائی اور دوبارہ نکاح کرادیا،لیکن  اس وقت شوہر کی طرف سے یہ شرط  بھی طے ہوئی کہ ابھی یہ  چلی جائے ، نو ماہ کے بعد میرے گھر آجائے ،نو ماہ گزرنے کے شوہر نے پھر منع کردیا لیکن میری سالی پھر چلی گئی، شوہر نے میرے سالے کو فون کر کے کہا " اس کو میرے گھر سے نکالو، اگر یہ نہ نکلی تو میری طرف سے فارغ "میری سالی پھر بھی وہاں سے نہیں آئی اور ابھی بھی وہ اپنے شوہر کے گھر ہے۔

واضح رہے کہ شوہر نے جب بھی میری سالی کو فارغ کا لفظ کہا ہے ہر مرتبہ اس کی نیت بیوی کو طلاق دینے کی تھی۔

دریافت یہ کرنا ہے کہ مذکورہ صورت میں میری سالی پر کتنی طلاقیں واقع ہوچکی ہیں؟ اور نفقہ کا کیا حکم ہے ؟ اور اس سوال کے ساتھ جرگہ کا ایک فیصلہ بھی منسلک ہے، اس کی شرعی حیثیت  معلوم کرنا بھی مطلوب ہے۔

جواب

1)صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل کا بیان درست ہے تو سائل کی سالی پر شرعاً دو بائن طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، نکاح ٹوٹ چکا ہے، اب دوبارہ نکاح کیے بغیر سائل کی سالی کا اپنے شوہر کے پاس رہنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے، لہذا میاں بیوی دونوں پر لازم ہےکہ فی الفور ایک دوسرے سے جدائی اختیار کریں اور سابقہ فعل پر توبہ اور استغفار بھی کریں۔

ہاں اگر سائل کی سالی اور اس کا شوہر باہمی رضامندی سے دوبارہ  ایک ساتھ رہنا چاہیں تو شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ ازسرِ نو نکاح کرکے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں، نکاح کرنے کے بعد شوہر کو صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا۔

2)سائل کی سالی کا نان نفقہ اور رہائش عدت کے ایام میں شوہر پر لازم ہے، عدت کے بعد لازم نہیں۔

3)باقی سائل نے جرگے کے فیصلے کے متعلق جو شرعی حکم  دریافت کیا ہے ،  اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ فریقین نے فیصلے سے پہلے اپنی رضامندی کا اظہار اس صورت میں کیا تھا کہ فیصلہ شریعت کے مطابق ہو،جیسا کہ فیصلے کے شروع میں درج ہے کہ "دونوں فریقین سے اختیار لیا گیا کہ جرگہ شریعت کے مطابق ہوگا"، اور مزید لکھا ہے کہ "باہمی رضامندی سے شریعت کے مطابق فیصلے پر آمین کی گئی"،  جب کہ جرگے کے اس فیصلے کی بعض شقیں غیر شرعی ہیں۔

1)عدت کے دوران مطلقہ کا نان نفقہ اور رہائش کا تمام خرچ شرعاً شوہر پر لازم ہوتاہے اور عدت کے بعد کچھ بھی لازم نہیں ہوتا، جب کہ اس فیصلے میں عدت کے بعد بھی مطلقہ کی نصف خوراک اور رہائش کا خرچ شوہر پر لازم کیا گیا ہے۔

2)بیٹا جب تک کمانے کے قابل نہ ہو اس کی خوراک، تعلیم اور رہائش کا تمام خرچ شرعاً باپ پر لازم ہوتاہےجب کہ اس فیصلے میں بیٹے (معاذ) کی رہائش کا نصف خرچہ والدہ کے بھائی (اظہار احمد پراچہ) کے ذمہ  لازم کیا گیاہے۔

3)آخر میں فیصلے کی ایک شق یہ  ہے کہ اگر کوئی فریق اس فیصلے سے منحرف ہوا تو اس پر دس لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، جب کہ شریعت میں مالی جرمانہ عائد کرنا ناجائز ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

الكنايات ثلاثة أقسام (ما يصلح جوابا لا غير) أمرك بيدك، اختاري، اعتدي (وما يصلح جوابا وردا لا غير) اخرجي اذهبي اعزبي قومي تقنعي استتري تخمري (وما يصلح جوابا وشتما) خلية برية بتة بتلة بائن حرام والأحوال ثلاثة (حالة) الرضا (وحالة) مذاكرة الطلاق بأن تسأل هي طلاقها أو غيرها يسأل طلاقها (وحالة) الغضب ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاء إلا فيما يصلح جوابا وردا فإنه لا يجعل طلاقا كذا في الكافي وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب إلا فيما يصلح للطلاق ولا يصلح للرد والشتم كقوله اعتدي واختاري وأمرك بيدك فإنه لا يصدق فيها

(جلد1، ص:375،374 )

"آپ کے مسائل اور ان کا حل" میں ہے:

سوال:

            میری اور میرے شوہر کی معمولی بات پر بحث ہوگئی، اور پھر وہ غصے میں آگئے اور انہوں نے مجھے کہا کہ: میں نے تمہیں فارغ کیا، اب تم یہاں رہو یا اپنے ماں باپ کے گھر۔۔۔آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ ایسا کہنے سے خدا نخواستہ طلاق تو واقع نہیں ہوگئی؟

جواب:

            "میں نے تمہیں فارغ کردیا" طلاق ہی کے الفاظ ہیں، ان الفاظ سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی، دوبارہ نکاح کرلیا جائے۔

(جلد6، کتاب الطلاق، طلاقِ بائن، ص:459،458 )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان

(فتاوی ہندیہ، جلد1، الباب السابع عشر فی النفقات، الفصل الثالث فی نفقۃ المعتدۃ، ص:557، ط: مکتبہ رشیدیہ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

لا يجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزا عن الكسب لزمانة، أو مرض ومن يقدر على العمل لكن لا يحسن العمل فهو بمنزلة العاجز كذا في فتاوى قاضي خان

(فتاوی ہندیہ، جلد1، کتاب الطلاق، الباب السابع عشر فی النفقات، الفصل الرابع فی نفقۃ الاولاد، ص:563، ط: مکتبہ رشیدیہ)

و فیہ ایضاً:

نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد


(فتاوی ہندیہ، جلد1، کتاب الطلاق، الباب السابع عشر فی النفقات، الفصل الرابع فی نفقۃ الاولاد، ص:560، ط: مکتبہ رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

(قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان۔۔۔في شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال

(فتاوی شامی بھامش الدر المختار، جلد4، کتاب الحدود، باب التعزیر، ص:62، ط: ایچ ایم سعید)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100062

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں