بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 رجب 1446ھ 14 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

تم کو تو میں کب کا چھوڑ چکا ہوں تم جاتی ہی نہیں ہو کا جملہ کئی بار کہنے اور اس کے اقرار کا حکم


سوال

ایک شخص اپنی بیوی سے (جب بھی جھگڑا ہو) یوں کہتا ہو کہ ”تم کو تو میں کب کا چھوڑ چکا ہوں، تم جاتی ہی نہیں ہو“ (یعنی خبر دیتا ہے، اس طرح نہیں کہتا کہ میں تجھے طلاق دیتا ہوں) یا وہ شخص جھگڑے کے وقت کسی اور کو یوں کہے کہ: ” اس عورت کو تو میں کتنی بار چھوڑ چکا ہوں، پر یہ جاتی ہی نہیں ہے“۔ تو کیا اس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے؟ یا نہیں؟ اور اگر واقع ہوتی ہے تو کون سی واقع ہوتی ہے؟۔

جواب

اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے (جب بھی جھگڑا ہو) یوں کہتا ہو کہ ”تم کو تو میں کب کا چھوڑ چکا ہوں، تم جاتی ہی نہیں ہو“، اگر اس شخص نے اس سے قبل طلاق نہیں دی تو اس جملے کی ادائیگی سے اس کی بیوی پر ایک رجعی طلاق واقع ہوجائے گی، خواہ وہ اپنے اقرار میں سچا ہو یا جھوٹا، اور اگر اس پہلے وہ اپنی بیوی کو طلاق دے چکا ہو، اور ان الفاظ سے اس کا ارادہ سابقہ طلاق کی خبر دینا ہو، تو طلاق واقع نہیں ہوگی، اور اگر اس کا ارادہ سابقہ طلاق کے علاوہ دوسری طلاق دینا ہو ، تو ایسی صورت میں ایک اور طلاق واقع ہوجائے گی۔ اسی طرح جتنی بار بھی مذکورہ الفاظ کہے گا اگر سابقہ طلاق کی خبر دینا مقصود ہو تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور نئی طلاق کا ارادہ کرنے سے  ان الفاظ سے مزید ایک طلاق واقع ہوجائے گی، یہاں تک کہ  اگر شوہر تین یا تین سے زائد مرتبہ یہ الفاظ استعمال کرچکا ہو تو تین طلاقیں واقع ہونے سے اس کی بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ اس پر حرام ہوجائے گی، جس کے بعد  شوہر کو رجوع یا تجدیدِ نکاح کی اجازت نہیں ہوگی۔

نیز اس شخص کا جھگڑے کے وقت اپنی بیوی کے بارے میں کسی اور کو یوں کہنا کہ ” اس عورت کو تو میں کتنی بار چھوڑ چکا ہوں، پر یہ جاتی ہی نہیں“، یہ جملہ بھی کم از کم تین  مرتبہ صریح طلاق دینے کا اقرار ہوگا، لہذا مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق اگر یہ شخص اپنی بیوی کو چھوڑ دینے کے الفاظ تین یا زائد مرتبہ کہہ چکا ہو تو عورت اس پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی۔

البحر الرائق میں ہے:

"قوله: (ويقع طلاق كل زوج عاقل بالغ) لصدوره من أهله في محله وهو بيان للمحل وشرائطه فأشار إلى محله بذكر الزوج فإنه الزوجة ولو حكما وهي المعتدة كما سبق وأشار إلى شرطه بالبلوغ، والعقل وهو تكليف الزوج، وقد صرح بمفهومه فيما يأتي ولم يشترط أن يكون جادا فيقع طلاق الهازل به، واللاعب للحديث المعروف «ثلاث ‌جدهن جد وهزلهن جد النكاح، والطلاق، والعتاق.............ولا أن يكون ناويا له لأنه شرط في الكنايات."

(كتاب الطلاق، ج:3، ص:263، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"ثم فرق بينه وبين سرحتك، فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي، مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق، وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت."

(باب الکنایات، ج:3، ص:299، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو أقر بالطلاق كاذبا أو هازلا وقع قضاء لا ديانة.......................وإن أشهد قبل ذلك لا يقع قضاء أيضا."

(کتاب الطلاق، رکن الطلاق، ج:3، ص:238، ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"قال: أنت طالق قد طلقتك يقع ثنتان إذا كانت المرأة مدخولا بها؛ لأنه ذكر جملتين كل واحدة منهما إيقاع تام لكونه مبتدأ وخبرا، والمحل قابل للوقوع، ولو قال: عنيت بالثاني الإخبار عن الأول لم يصدق في القضاء؛ لأن هذه الألفاظ في عرف اللغة والشرع تستعمل في إنشاء الطلاق فصرفها إلى الإخبار يكون عدولا عن الظاهر، فلا يصدق في الحكم ويصدق فيما بينه وبين الله تعالى؛ لأن صيغتها صيغة الإخبار، ولو قال لامرأته: أنت طالق فقال له رجل: ما قلت؟ فقال: طلقتها أو قال قلت: هي طالق فهي واحدة في القضاء؛ لأن كلامه انصرف إلى الإخبار بقرينة الاستخبار."

(کتاب الطلاق، فصل في النية في أحد نوعي الطلاق وهو الكناية، ج:3، ص:102، ط:دار الکتب العلمیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"سئل ‌كم ‌طلقها فقال ثلاثا ثم زعم أنه كاذبا لا يصدق في القضاء كذا في التتارخانية."

(کتاب الطلاق، الباب الأول الفصل الأول، ج:1، ص:359، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604100676

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں