بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جہاں چاہو نکاح کرلو


سوال

ایک شخص اپنی بیوی کو مارپیٹ کرکے گھر سے چلا گیا، اس کے بعد بیوی نے بہت رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن شوہر نے فون نہیں اٹھایا، کافی کوششوں بعد جب رابطہ ہوا تو شوہر نے کہا کہ نہ مکان کا کرایہ دوں گااور نہ بیوی کے نفقہ کا ذمہ دار ہوں، گھر کا سامان باہر پھینک دو، تقریباً تین ماہ بعد جب بچے سے ملنے آیا تو کہتا ہے کہ میرا اور میرے والدین اور رشتے داروں کا حق ہے کہ بچے سے ملیں، تین ماہ سے نفقہ نہیں دے رہا، دوسری شادی کرلی ہے، بیوی گھر بسانے کا کہے تو جواب دیتا ہے کہ ہرگز نہیں ہوسکتا، تم جہاں چاہو نکاح کرلو، ایک سو ایک فیصد نہیں ہوسکتا، بیوی کہتی ہے لکھ کر دو تو لکھ کر بھی نہیں دیتا، اسی طرح دو سال آٹھ ماہ کا کرایہ بھی نہیں دیا، مذکورہ گفتگو میں استعمال ہونے والے الفاظ سے طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں " تم جہاں چاہو نکاح کرلو" اگر شوہر نے طلاق کی نیت سے کہا تھا تو ایک طلاقِ بائن واقع ہوچکی ہے اور نکاح ختم ہوچکا ہے، عدت کے بعد مطلقہ کہیں اور نکاح کرنے میں آزاد ہے اور اگر شوہر مذکورہ جملے سے طلاق کی نیت نہ ہونے پر حلف اٹھالے تو اس سے کوئی طلاق نہیں ہوگی ، میاں بیوی کا نکاح بدستور قائم ہے۔

نیز شوہر کا رویہ انتہائی افسوس ناک اور شرعی تعلیمات کے خلاف ہے، بچہ جب تک کمانے کی عمر کو نہ پہنچ جائے تب تک اس کا نفقہ  باپ پر لازم ہے اور بیوی جب تک نکاح میں ہے تب تک اس کا نفقہ بھی شوہر کے ذمے ہے، بیوی کو نہ طلاق دینا اور نہ بسانا بھی ظلم و زیادتی ہے، بیوی کو چاہیے کہ شوہر کے اور اپنے خاندان کے معزز اور سنجیدہ افراد کے ذریعے شوہر کو گھر بسانے اور بیوی کو ساتھ رکھنے پرراضی کرنے کی کوشش کرے، اگر شوہر کسی صورت گھر بسانے پر آمادہ نہ ہو تو اسے طلاق یا خلع دینے پر آمادہ کرے، الغرض شوہر کا معاملے  کو لٹکاکر رکھنا صریح ظلم و زیادتی ہے جس پر آخرت میں ضرور پوچھ  ہوگی۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 314) :

" اذهبي وتزوجي تقع واحدة بلا نية.

(قوله: تقع واحدة بلا نية) لأن تزوجي قرينة، فإن نوى الثلاث فثلاث بزازية، ويخالفه ما في شرح الجامع الصغير لقاضي خان: ولو قال: اذهبي فتزوجي وقال: لم أنو الطلاق لايقع شيء؛ لأن معناه إن أمكنك اهـ إلا أن يفرق بين الواو والفاء وهو بعيد هنا بحر، على أن تزوجي كناية مثل اذهبي فيحتاج إلى النية فمن أين صار قرينة على إرادة الطلاق باذهبي مع أنه مذكور بعده والقرينة لا بد أن تتقدم كما يعلم مما مر في اعتدي ثلاثا فالأوجه ما في شرح الجامع، ولا فرق بين الواو والفاء، ويؤيده ما في الذخيرة اذهبي وتزوجي لايقع إلا بالنية وإن نوى فهي واحدة بائنة، وإن نوى الثلاث فثلاث."

(كتاب الطلاق، باب الكنايات، ط: سعيد)

النهر الفائق شرح كنز الدقائق (2/ 360) :

"ولو قال: (اذهبي) فتزوجي وقال: لم أنو لم يقع لأن معناه إن أمكنك، قاله قاضي خان والمذكور في (الحافظية) وقوعه بالواو بلا نية، ولو قال: إلى جهنم وقع إن نوى، كما في (الخلاصة) والله الموفق، (ابتغي الأزواج) إن قدرت أو لأني طلقتك ومثله تزوجي."

(كتاب الطلاق، فصل في الطلاق قبل الدخول، ط: دارالكتب العلمية بيروت)

الفتاوى الهندية (1/ 376) :

"ولو قال لها: اذهبي فتزوجي تقع واحدة إذا نوى فإن نوى الثلاث تقع الثلاث."

(كتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات، ط: رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144306100041

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں