زید کے پانچ بھائی ہیں، سب مل جل کر ایک ساتھ رہتے ہیں، مگر کاروبار ہر ایک کا الگ الگ ہے، زید نے اپنے ذاتی پیسوں سے ایک پلاٹ خریدا، اور پھر اس پر بلڈنگ تعمیر کی، بلڈنگ تعمیر کرنے کے بعد اپنے بھائیوں سے کہا کہ ”تم بھی میرے ساتھ اس گھر میں اپنا گھر سمجھ کر رہ سکتے ہوں“۔
اب زید بالکل مفلس ہوگیا ہے، اور 25 لاکھ کا قرض کا دار ہوگیا ہے، اب زید کے بھائی زید سے الگ ہونا چاہتے ہیں، اور ساتھ میں زید سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ نے جو بات کی تھی کہ ”تم بھی میرے ساتھ اس گھر میں اپنا گھر سمجھ کر رہ سکتے ہوں“ تو اب ہمیں اس بناء پر آپ حصہ دیدیں۔
پوچھنا یہ ہے کہ بھائیوں کا زید سے یہ مطالبہ درست ہے؟
اگر یہ پلاٹ اور پھر اس پر تعمیر زید نے اپنے ذاتی پیسوں سے کی تھی، تو اس میں زید کے بھائیوں کا حق نہیں، کیوں کہ زید کا اپنے بھائیوں سے محض یہ کہنے سے کہ ” تم بھی میرے ساتھ اس گھر میں اپنا گھر سمجھ کر رہ سکتے ہوں“ بھائیوں کا اس گھر میں حق ثابت نہیں ہوتا، کیوں کہ یہ عاریت کے الفاظ ہے، ہبہ کے نہیں، لہذا زید کے بھائیوں کا مذکورہ مطالبہ درست نہیں، یہ پوری بلڈنگ اکیلے زید کی ملکیت ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"ولو قال: جعلت لك سكنى داري هذه شهرا، أو قال: داري لك سكنى، أو قال: عمري لك سكنى، كانت عارية، هكذا في الظهيرية."
(كتاب العارية، الباب الثاني الألفاظ التي تنعقد بها العارية، ج:4، ص:363، ط:دار الفکر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144606102668
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن