بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

’’تم آزاد ہو تم کو جہاں جانا ہے جاؤ‘‘ کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

شوہر نے  مالی پریشانی کی وجہ سے تنگ آکر بیوی کو کہا "تم آزاد ہو تم کو جہاں جانا ہے جاؤ" کیا اس سے طلاق واقع ہوگئی؟ جب کہ صورتِ  حال یہ  رہی کہ مہینے سے اصرار تھا کہ اپنے ماں باپ کے گھر جاؤ دونوں بچوں کو لے کر؛ کیوں کہ گھر کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے تھے تو یہ الفاظ استعمال کیے گئے۔  اس صورتِ حال کے تحت کیا ایک طلاق ہوچکی ہے یا نکاح باقی  ہے؟ اور اگر طلاق ہوگئی ہے تو رجوع کی کیا صورت ہے؟ 

جواب

 اگر  مذکورہ جملہ ’’تم آزاد ہو تم کو جہاں جانا ہے جاؤ‘‘ کہتے وقت ذہن میں یہ تھا کہ تمہیں والدین کے گھر جانے کی اجازت ہے  تو اس صورت میں چوں کہ اس لفظ ’’آزاد‘‘ کا ایک معنیٰ کسی کام کا اختیار اور اجازت دینا بھی ہے اور شوہر کے کلام کا سیاق و سباق بھی اس کا احتمال رکھتا ہے؛  لہذا اس صورت میں اس  جملے سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔ لیکن اگر شوہر نے مذکورہ جملہ ’’تم آزاد ہو تم کو جہاں جانا ہے جاؤ‘‘ طلاق کی نیت سے کہا ہو یا مذکورہ جملہ کہتے وقت کوئی بھی نیت نہ ہو تو اس صورت میں مذکورہ  جملہ کہنے سے ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی،اور دوبارہ  ساتھ  رہنے کے لیے از سرِ نو دو گواہوں کی موجودگی میں  نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہو گا۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 437):

"وأما في الديانة فهي معتبرة، حتى إذا نوى به الطلاق من وثاق لايقع ديانةً. اهـ. أقول: وكذا صرح بذلك في البحر و الأشباه، وعليه فالفرق بين الصريح والكناية أن الأول لايحتاج إلى النية في القضاء فقط و يحتاج إليها ديانة، والثاني يحتاج إليها فيهما، لكن احتياج الأول إلى النية ديانة معناه أن لاينوي به غير معناه العرفي، فلو نوى الطلاق من الوثاق: أي القيد لا يقع لصرفه اللفظ عن معناه. أما إذا قصد التلفظ بأنت طالق مخاطبًا به زوجته ولم يقصد به الطلاق ولا غيره فالظاهر الوقوع قضاء وديانة لأن اللفظ حقيقة فيه، وبدليل أنه لو صرح بالعدد لايدين كما لو نوى الطلاق عن العمل فيقع قضاءً و ديانةً."

الفتاوى الهندية (1/ 377):

’’و لايلحق البائن البائن بأن قال لها: أنت بائن، ثم قال لها: أنت بائن، لايقع إلا طلقة واحدة بائنة؛ لأنه يمكن جعله خبرًا عن الأول و هو صادق فيه فلا حاجة إلى جعله إنشاء لأنه اقتضاء ضروري.‘‘

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 409):

"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200788

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں