بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تم آزاد ہو کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

( 2014)  میں میرے بیٹے کے انتقال کے بعد میرے شوہر نے مجھے بولا:  کہ میں نے تمھیں آ زاد کیا، تم جس کے ساتھ رہنا چاہو تم آ زاد ہو، میری طرف سے آ زادہو،  یہی بات 3٫4 دفعہ کہی کہ "تم آزاد ہو"  اس کے بعد تجدید نکاح ہوا، اب( 2023)  میں(6) جنوری کو انہوں نے مجھے پیسے چوری کرنے کے الزام میں مجھے کہا کہ "میں تمھیں طلاق دیتاہوں" اور میں 6 ماہ کی حاملہ ہوں اس حالت میں مجھے طلاق دی ہے اس کا جواب مطلوب ہے۔

نیز تجدید نکاح سے مقصد یہ ہے کہ دوبارہ صرف نکاح ہوا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب شوہر نے تین چار دفعہ" تم آزاد ہو" کہا تو اس سے ایک طلاق بائن واقع ہوگئی تھی، تجدید نکاح کے بعد شوہر کو مزید دو طلاق دینے کا اختیار تھا، تاہم جب شوہر نے دوران حمل  دوبارہ طلاق دی ہے تو اس سے بیوی پر مزید ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی، اس طلاق کے بعد عدت( یعنی حمل ہونے کی وجہ سے بچے کی پیدائش  سےپہلے)تک شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار ہے، اگر شوہر نےعدت گزرنے سے پہلے یعنی بچے کی پیدائش سے پہلے پہلے رجوع کرلیا تو نکاح برقرار رہے گا، لیکن اگر شوہر نے عدت گزرنے سے پہلے رجوع نہیں کیا تو بچے کی پیدائش ہوتے ہی نکاح ختم ہو جائے گا پھر رجوع کرنا جائز نہیں ہوگا،تاہم عدت گزرنے کے بعد اگر دونوں ساتھ رہنا چاہیں تو دوبارہ نئے سرے سے دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر اور نئے ایجاب وقبول کے ساتھ نکاح کرنا ہو گا، اور دونوں صورتوں میں آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا اختیار باقی رہ جائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) أي عدة الدخول حقيقة إذ لا رجعة في عدة الخلوة ابن كمال، وفي البزازية: ادعى الوطء بعد الدخول وأنكرت فله الرجعة لا في عكسه. وتصح مع إكراه وهزل ولعب وخطإ (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة."

(کتاب الطلاق، باب الرجعۃ، ج:3، ص:397، ط:ایج ایم سعید)

فتح القدير  میں ہے:

"(قوله وطلاق الحامل يجوز عقيب الجماع؛ لأنه لا يؤدي إلى اشتباه وجه العدة) إن اعتبر حاظرا؛ ولأنه زمان الرغبة في الوطء لكونه غير معلق؛ لأنه اتفق أنها قد حبلت أحبه أو سخطه فبقي آمنا من غيره فيرغب فيه لذلك، أو لمكان ولده منها؛ لأنه يتقوى به الولد فيقصد به نفعه".

(کتاب الطلاق، باب طلاق السنۃ، ج:3، ص:478، ط:دارالفکر)

 فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144407101436

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں