بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلوع کے چار منٹ بعد نماز فجر پڑھنے کا حکم


سوال

نماز کے اوقات کے لیے جو رائج نقشے ہیں۔ اگر اس میں صبح کی نماز قضاء ہونے کے 4 منٹ بعد نماز پڑھی تو اس صورت میں کیااعادہ لازم ہے؟ جبکہ کہا جاتا ہے کہ ان نقشوں میں احتیاطا وقت دیا گیا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ تین اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت صحیح احادیث میں وارد ہے، ان اوقات میں طلوعِ آفتاب کا وقت بھی داخل ہے، ان صحیح احادیث کی روشنی میں حنفیہ کے نزدیک فجر کی نماز طلوعِ آفتاب کے وقت ادا کرنا مکروہِ تحریمی (ناجائز) ہے،اور  اس کی مقدار بعض احادیث میں "قدر رمح أو رمحین"  (یعنی طلوع کے بعد سورج کے ایک یا دو نیزے بلند ہونا )بیان ہوئی  ہے۔جس کی مقدار(منٹ کے حساب سے) کم از کم دس منٹ  ہے۔

لہٰذا  (کسی علاقے  کے لیے مرتب کیے گئے اوقات نماز کےمستند نقشہ کے مطابق) جب طلوع آفتاب  کا وقت ہوجائے تو سورج طلوع  ہونے سے دس منٹ تک نماز ادا کرنا جائز نہیں،اور اس مکروہ وقت کے دوران پڑھی گئی نماز ادا نہیں ہوگی، بلکہ اس نماز کا اعادہ لازم ہوگا۔

باقی بعض معتبر نقشوں میں درج اوقات  میں احتیاطی منٹ/سیکنڈ  کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے،وہ  بھی ضرورت کی بناء پر ہی ہوتا ہے، اور اس احتیاط پر عمل بھی ضروری ہوتا ہے، نیز وہ احتیاط بھی زیادہ سے زیادہ ایک آدھ منٹ کی ہی ہوتی ہے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں جس شخص نے ایسے وقت میں فجر کی نماز ادا کی جب (نماز کے نقشہ کے مطابق) سورج طلوع ہوتے ہوئے چار منٹ گزر چکے تھے، تو اس کی یہ نماز ادا نہیں ہوئی، اس کا اعادہ لازم ہے۔ (بشرطیکہ وہ نماز کا نقشہ مستند بھی ہو اور اسی نمازی کے علاقے کے لیے مرتب کیاگیا ہو )۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: بخلاف الفجر إلخ) أي فإنه لا يؤدي فجر يومه وقت الطلوع؛ لأن وقت الفجر كله كامل فوجبت كاملة، فتبطل بطرو الطلوع الذي هو وقت فساد."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)،كتاب الصلاة ،1 / 373، ط: سعيد)

وفيه أيضاّ:

"وما دامت العین لا تحار فیها فهي في حکم الشروق، کما تقدم في الغروب أنه الأصح، کما في البحر. أقول: ینبغي تصحیح ما نقلوه عن الأصل للإمام محمد من أنه ما لم ترتفع الشمس قدر رمح فهی في حکم الطلوع ؛ لأن أصحاب المتون مشوا علیه في صلاة العید حیث جعلوا أوّل وقتها من الإرتفاع ولذا جزم به هنا في الفیض ونور الإیضاح."

(ردالمحتار على الدر المختار، کتاب الصلاة، مطلب یشترط العلم بدخول الوقت،۱/۳۷۱، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101312

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں