بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

’’تجھے تین شرطوں کے ساتھ طلاق ہے‘‘ کہنے کا حکم


سوال

کیا تین شرطوں کے ساتھ طلاق ہوگی؟ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اس طرح کہا کہ ’’تجھے تین شرطوں کے ساتھ طلاق ہے‘‘ یہ الفاظ ایک بار ہی بیوی کے سامنے کہے ہیں، جب کہ دونوں کے درمیان جھگڑے کا ماحول تھا، راہ نمائی فرمائیں کہ طلاق ہوگئی یا نہیں (تین شرطوں کے ساتھ سے مراد بقول اس شخص کے کہ میرا مطلب دھمکی دینا ہے) ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے بیان کے مطابق اگر واقعۃً مذکورہ شخص نے اپنی بیوی کو ’’تجھے تین شرطوں کے ساتھ طلاق ہے‘‘ کہاہے، تو ان الفاظ سے اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، اگرچہ مذکورہ شخص کی مراد صرف ڈرانا دھمکانا ہی تھی، اس کی بیوی اس پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، اب دونوں کا ساتھ رہنا شرعاً جائز نہیں ہے، مطلقہ اپنی عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

فتاویٰ فریدیہ میں ہے:

’’ہمارے بلاد کے عرف میں تین شرط تین دفعہ کو کہا جاتا ہے، اس لیے اس عرف کی بناء پر یہ بیوی مطلقہ مغلظہ ہوئی ہے۔‘‘

(کتاب الطلاق، باب صریح الطلاق، ج: 5، ص: 281)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(لا) ينكح (مطلقة) من نكاح صحيح نافذ (بها) أي بالثلاث (لو حرة وثنتين لو أمة) ولو قبل الدخول... (حتى يطأها غيره ولو) الغير (مراهقا) يجامع مثله... أو خصيا، أو مجنونا، أو ذميا لذمية (بنكاح) نافذ خرج الفاسد والموقوف."

(كتاب الطلاق، باب الرجعة، ج: 3، ص: 410، ط: دار الفكر بيروت)

ہدایہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة، أو ثنتين في الأمة: لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا، ويدخل بها، ثم يطلقها أو يموت عنها."

(كتاب الطلاق، فصل فيما تحل به المطلقة، ج: 2، ص: 132، ط: البشرى)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404100444

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں