بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 جُمادى الأولى 1446ھ 03 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

تجھ کو تین طلاق بائنہ کہنے اور واقع ہونے میں شرعی نقطہ نظر


سوال

اگر کسی شخص نے ایک ہی لفظ کے ذریعہ تین طلاق دے دی یعنی تجھ کو تین طلاق بائنہ کہہ کر طلاق دے دی تو کتنی طلاق ہوں گی ؟ 

جواب

واضح ر ہے کہ تین طلاقیں ایک ہی مجلس میں دی جائیں،  یا الگ الگ مجلس میں  دی جائیں بہر صورت تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں، اور یہ جمہور صحابہ، جمہور تابعین اور ائمۂ اربعہ کا مذہب ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، نکاح ختم ہوچکا ہے، اور بیوی حرام ہوچکی ہے، اب شوہر کے لیے رجوع کرنا اور دوبارہ تجدید ِنکاح کرنا جائز نہیں ہے، اور عورت کو عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے کی اجازت ہوگی۔

قرآن مجید میں ہے :

"فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ."(البقره ، آیت نمبر۲۳۰)

ترجمہ:"اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دی  تو جب وہ عورت دوسرے سے  نکاح  نہ کرلے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔ "(بیان القرآن)

احكام القرآن للجصاص میں ہے:

 "فالكتاب والسنة وإجماع السلف توجب إيقاعَ الثلاث معا وإن كانت معصية."

(ج:1، صفحه: 529، ط: قدیمی)

بخاری شریف میں ہے:

"حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال: أخبرني عروة بن الزبير، أن عائشة، أخبرته: أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن رفاعة طلقني فبت طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته»."

(صحیح البخاری، باب من أجاز طلاق الثلاث، ج: 7، ص: 42، رقم الحدیث: 5260، ط: دار طوق النجاة)  

         بخاری شریف کے دوسری حدیث  میں ہے:

'' عن عائشة، أن رجلاً طلق امرأته ثلاثاً، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله  عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول."

(کتاب الطلاق،باب من اجاز طلاق الثلاث، ج:7، ص:47،ط: مکتبه سلطانیه) 

امام بخاری رحمہ اللہ  تیسرے   حدیث  میں بیان فرماتے ہیں:

"قال عويمر: كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها، فطلقها ثلاثاً قبل أن يأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ابن شهاب: «فكانت تلك سنة المتلاعنين."

(کتاب الطلاق ،باب اللعان، ج:7، ص:53، ط: مکتبه سلطانیه)

سنن نسائی میں ہے:

"أخبرنا سليمان بن داود، عن ابن وهب، قال: أخبرني مخرمة، عن أبيه، قال: سمعت محمود بن لبيد، قال: أخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن رجل طلق امرأته ثلاث تطليقات جميعا، فقام غضبانا ثم قال: «أيلعب بكتاب الله وأنا بين أظهركم؟» حتى قام رجل وقال: يا رسول الله، ألا أقتله؟"

(کتاب الطلاق،الثلاث المجموعة وما فیه من التغلیظ،ج:6،ص:142،ط:مکتب المطبوعات الاسلامیه -حلب)

عبد اللہ بن عمر سے منقول ہے:

"جاء رجل اِلی عبد اﷲ فقال اِنی طلقت امرأتی مائة قال بانت منک بثلاث و سائرهن معصية."

(السنن للبيهقي، ج:7،  ص: 332، رقم : 14726، مکتبة دار الباز)

فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"الخامس دعوى أنه ورد في صورة خاصة فقال بن سريج وغيره يشبه أن يكون ورد في تكرير اللفظ كأن يقول أنت طالق أنت طالق أنت طالق وكانوا أولا على سلامة صدورهم يقبل منهم أنهم أرادوا التأكيد فلما كثر الناس في زمن عمر وكثر فيهم الخداع ونحوه مما يمنع قبول من ادعى التأكيد حمل عمر اللفظ على ظاهر التكرار فأمضاه عليهم وهذا الجواب ارتضاه القرطبي وقواه بقول عمر إن الناس استعجلوا في أمر كانت لهم فيه أناة وكذا قال النووي إن هذا أصح الأجوبة الخ."

(کتاب الطلاق،باب من جوز الطلاق الثلاث،ج:9،ص:364،ط:دار المعرفة)

علامہ بدر الدین عینی فرماتے ہیں:

"ومذهب جماهیر العلماء من التابعین ومن بعدهم منهم: الأوزاعي والنخعي والثوري، و أبو حنیفة وأصحابه، ومالک و أصحابه، والشافعي وأصحابه، وأحمد و أصحابه، و اسحاق و أبو ثور و أبو عبید وآخرون کثیرون علی أن من طلق امرأته ثلاثاً، وقعن؛ولکنه یأثم."

(کتاب فضائل القرآن، باب من جوز طلاق الثلاث،ج:20، ص:233،  ط: دار احیاء التراث العربي، بیروت )

شرح النووي على مسلم میں ہے:

"وقد اختلف العلماء فيمن قال لامرأته: أنت طالق ثلاثا، فقال الشافعي و مالك و أبو حنیفة وأحمدوجماهير العلماء من السلف و الخلف: يقع الثلاث."

(کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث، ج:1، ص:474، ط:قدیمی )

علامہ ابن الہمام فرماتے ہیں:

"ذهب جمهور الصحابة والتابعین ومن بعدہم من أئمة المسلمین الی أنه یقع ثلاثاً."

(فتح القدیر، کتاب الطلاق، ج:3، ص:469، ط: دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق باب الرجعة،  ج :1، ص:473، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144406101338

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں