بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طہر کے طویل ہونے کی صورت میں عدت کا حکم


سوال

فیملی ممبر میں ایک لڑکی کو تین طلاق ہو چکی ہیں، ان کی عمر 37 سال ہے اور طلاق ان کو محرم الحرام کے مہینے میں ہوئی ہے۔طلاق کو تقریباً سات ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔انہیں ہارمونز کا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے حیض آنے میں مہینے مہینے لگ جاتے ہیں، لیکن ماہواری (حیض) اب تک صرف ایک بار ہوئی ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ انہیں حمل بھی نہیں ہے۔ کیا اب اس لڑکی کا نکاح کرسکتے ہیں یا نہیں؟ اس کانکاح اب جائز ہو گا یا نہیں؟ شرعی حوالہ کے ساتھ جواب دیجیے گا۔ اس کا جواب فتوی کی شکل میں دارالافتاء  کی اسٹمپ کے ساتھ مل جاۓ تو مہربانی ہوگی۔

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ عورت کی عدت مکمل تین ماہواریاں ہیں۔ چونکہ ۷ ماہ میں اب تک ایک ہی مرتبہ ماہ واری آئی ہےتو مذکورہ خاتون کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا۔جب تین ماہ واریاں مکمل ہوجائیں گی تو اس وقت عدت مکمل ہوگی اور پھر دوسری جگہ نکاح کیا جاسکتا ہے۔نیز اپنے اس ہارمونز کے مسئلہ کے لیے کسی ماہر  طبیب سے رجوع کیا جائے اور ان کے مشورہ سے دوا لی جائے تاکہ ماہ واری معمول کے مطابق آئے اور مذکورہ عورت کی عدت مکمل ہوجائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وخرج بقوله (ولم تحض) الشابة الممتدة بالطهر بأن حاضت ثم امتد طهرها، فتعتد بالحيض إلى أن تبلغ سن الإياس جوهرة وغيرها، وما في شرح الوهبانية من انقضائها بتسعة أشهر غريب مخالف لجميع الروايات فلا يفتى به كيف وفي نكاح الخلاصة: لو قيل لحنفي ما مذهب الإمام الشافعي في كذا وجب أن يقول قال أبو حنيفة كذا، نعم لو قضى مالكي بذلك نفذ كما في البحر والنهر

(قوله: ثم امتد طهرها) أي سنة، أو أكثر بحر 

(قوله: نعم لو قضى مالكي بذلك نفذ) لأنه مجتهد فيه، وهذا كله رد على ما في البزازية. قال العلامة: والفتوى في زماننا على قول مالك وعلى ما في جامع الفصولين: لو قضى قاض بانقضاء عدتها بعد مضي تسعة أشهر نفذ اهـ لأن المعتمد أن القاضي لا يصح قضاؤه بغير مذهبه خصوصا قضاة زماننا.....قلت: لكن هذا ظاهر إذا أمكن قضاء مالكي به، أو تحكيمه، أما في بلاد لا يوجد فيها مالكي يحكم به فالضرورة متحققة، وكأن هذا وجه ما مر عن البزازية والفصولين."

(کتاب الطلاق، باب العدۃ، ج نمبر ۳، ص نمبر  ۵۰۹، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101527

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں