بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تحفہ ملا جوڑا زکوة میں دینا


سوال

کسی نے مجھے  ایک جوڑا تحفہ دیا، اب وہ میری ملکیت ہے، کیا میں اس کو زکاۃ میں دے سکتا ہوں؟ اور اس کی قیمت کیا لگائی جائے گی؟

اگر اس کی قیمت مجھے معلوم ہے تو  کیا اتنی ہی سمجھی جائے گی؟ یا دکان پر جاکر پوچھا جائے گا کہ کتنے کا خریدو گے؟ عام طور پر اس طرح قیمت معلوم کرنا بہت مشکل ہے تو کیا کریں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل مذکورہ جوڑا زکاة کی نیت سے کسی مستحق کو دے سکتا ہے، تاہم زکاة کے حساب میں اس جوڑے کی موجودہ قیمتِ فروخت کا اعتبار ہوگا، لہذا یہ جوڑا زکاۃ میں دینے سے پہلے اس کی قیمتِ فروخت بازار میں لگوالی جائے، اس کے لیے کپڑا بازار لے جانا ضروری نہیں ہے، کپڑے کے کسی تاجر سے اس کی قیمت کا اندازا معلوم کیا جاسکتاہے۔

المحيط البرهاني في فقه النعماني میں ہے:

"و ذكر محمد -رحمه الله- في «الرقيات» أنه يقوم في البلد الذي حال الحول على المتاع بما يتعارفه أهل ذلك البلد نقداً فيما بينهم، يعني غالب نقد ذلك البلد، ولا ننظر إلى موضع الشراء، ولا إلى موضع المالك وقت حولان الحول؛ لأن هذا مال وجب تقويمه، فيقوّم بغالب نقد البلد؛ كما في ضمان المتلفات إلا أنه يعتبر نقد البلد الذي حال الحول فيه على المال؛ لأن الزكاة تصرف إلى فقراء البلدة التي فيها المال، فالتقويم بنقد ذلك البلد أنفع في حق الفقراء من حيث الرواج، فيجب اعتباره."

(كتاب الزكاة، الفصل الثالث في بيان مال الزكاة، ۲ / ۲۴۶، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201613

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں