کسی نے مجھے ایک جوڑا تحفہ دیا، اب وہ میری ملکیت ہے، کیا میں اس کو زکاۃ میں دے سکتا ہوں؟ اور اس کی قیمت کیا لگائی جائے گی؟
اگر اس کی قیمت مجھے معلوم ہے تو کیا اتنی ہی سمجھی جائے گی؟ یا دکان پر جاکر پوچھا جائے گا کہ کتنے کا خریدو گے؟ عام طور پر اس طرح قیمت معلوم کرنا بہت مشکل ہے تو کیا کریں؟
صورتِ مسئولہ میں سائل مذکورہ جوڑا زکاة کی نیت سے کسی مستحق کو دے سکتا ہے، تاہم زکاة کے حساب میں اس جوڑے کی موجودہ قیمتِ فروخت کا اعتبار ہوگا، لہذا یہ جوڑا زکاۃ میں دینے سے پہلے اس کی قیمتِ فروخت بازار میں لگوالی جائے، اس کے لیے کپڑا بازار لے جانا ضروری نہیں ہے، کپڑے کے کسی تاجر سے اس کی قیمت کا اندازا معلوم کیا جاسکتاہے۔
المحيط البرهاني في فقه النعماني میں ہے:
"و ذكر محمد -رحمه الله- في «الرقيات» أنه يقوم في البلد الذي حال الحول على المتاع بما يتعارفه أهل ذلك البلد نقداً فيما بينهم، يعني غالب نقد ذلك البلد، ولا ننظر إلى موضع الشراء، ولا إلى موضع المالك وقت حولان الحول؛ لأن هذا مال وجب تقويمه، فيقوّم بغالب نقد البلد؛ كما في ضمان المتلفات إلا أنه يعتبر نقد البلد الذي حال الحول فيه على المال؛ لأن الزكاة تصرف إلى فقراء البلدة التي فيها المال، فالتقويم بنقد ذلك البلد أنفع في حق الفقراء من حيث الرواج، فيجب اعتباره."
(كتاب الزكاة، الفصل الثالث في بيان مال الزكاة، ۲ / ۲۴۶، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144111201613
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن