بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

توہین آمیز مواد کو بار بار دہرانے کا حکم


سوال

 میرا سوال یہ ہے کے سوشل میڈیا پر اکثر توہین آمیز مواد پوسٹ کر کے لوگوں کو آگاہ کیا جاتا ہے ،اور خود مسلمان ایسی پوسٹ شیئر کر رہے ہوتے ہیں بعض اوقات میڈیا پر سیاستدان یا کوئی مشہور و معروف شخص جہالت میں توہین رسالت یا اللہ تعالیٰ کی شان میں توہین آمیز الفاظ استعمال کر جاتا ہے، اور میڈیا ان الفاظ کو دہرا رہا ہوتا ہے،  سوشل میڈیا پر لوگ بحث و مباحثہ میں توہین آمیز الفاظ بار بار لکھ رہے ہوتے ہیں ،تو اِس بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا توہین آمیز الفاظ دہرا  کر لوگوں کو بتایا جاسکتا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ جس طرح گناہ کرنا جرم اور سز ا کا سبب ہے ،اسی طرح اس گناہ کے کام کو آگے دوسرے لوگوں تک پھیلانا اور اس کی تشہیر کرنا بھی گناہ اور شرعاً ناپسندیدہ عمل ہے، صورتِ مسئولہ میں سوشل میڈیا پر توہین آمیز  مواد پوسٹ کرنا بھی  ناجائز اور گناہ ہے اور پھر اس مواد کو آگے شیئر کرنا اور اس کو بار بار دہرانا بھی گناہ ہے،لہذا توہین آمیز مواد کو پوسٹ کرنا اور اس کو شیئر کرنے سے اجتناب کرنا لازم ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ."(سورۃ النور،آیت نمبر:19)

ترجمہ:جو لوگ  چاہتے ہیں کہ بےحیائی کی بات کا مسلمانوں میں چرچا ہو  ان کے لیے دنیا اور آخرت میں سزائے دردناک (مقرر) ہے ۔(بیان القرآن)

اس آیت کی تفسیر میں معارف القرآن میں ہے:

"قرآن حکیم نے فواحش کے انسداد کا یہ خاص نظام بنایا ہے کہ اول تو اس قسم کی خبر کہیں مشہور نہ ہونے پاوے اور شہرت ہو تو ثبوت شرعی کے ساتھ ہو تاکہ اس شہرت کے ساتھ ہی مجمع عام میں حد زنا اس پر جاری کر کے اس شہرت ہی کو سبب انسداد بنادیا جائے اور جہاں ثبوت شرعی نہ ہو وہاں اس طرح کی بےحیائی کی خبروں کو چلتا کردینا اور شہرت دینا جبکہ اس کے ساتھ کوئی سزا نہیں طبعی طور پر لوگوں کے دلوں سے بےحیائی اور فواحش کی نفرت کم کردینے اور جرائم پر اقدام کرنے اور شائع کرنے کا موجب ہوتی ہے جس کا مشاہدہ آج کل کے اخبارات میں روزانہ ہوتا ہے کہ اس طرح کی خبریں ہر روز ہر اخبار میں نشتر ہوتی رہتی ہیں۔ نوجوان مرد اور عورتیں ان کو دیکھتے رہتے ہیں روزانہ ایسی خبروں کے سامنے آنے اور اس پر کسی خاص سزا کے مرتب نہ ہونے کا لازمی اور طبعی اثر یہ ہوتا ہے کہ دیکھتے دیکھتے وہ فعل خبیث نظروں میں ہلکا نظر آنے لگتا ہے اور پھر نفس میں ہیجان پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے۔ اسی لئے قرآن حکیم نے ایسی خبروں کی تشہیر کی اجازت صرف اس صورت میں دی ہے جبکہ وہ ثبوت شرعی کے ساتھ ہو اس کے نتیجہ میں خبر کے ساتھ ہی اس بےحیائی کی ہولناک پاداش بھی دیکھنے سننے والوں کے سامنے آجائے اور جہاں ثبوت اور سزا نہ ہو تو ایسی خبروں کی اشاعت کو قرآن نے مسلمانوں میں فواحش پھیلانے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ کاش مسلمان اس پر غور کریں۔

اس آیت میں ایسی خبریں بلا ثبوت مشہور کرنے والوں پر دنیا و آخرت دونوں میں عذاب الیم ہونے کا ذکر ہے۔ آخرت کا عذاب تو ظاہر ہے کہ قیامت کے بعد ہوگا جس کا یہاں مشاہدہ نہیں ہوسکتا مگر دنیا کا عذاب تو مشاہدہ میں آنا چاہئے سو جن لوگوں پر حد قذف (تہمت کی سزا) جاری کردی گئی ان پر تو دنیا کا عذاب آ ہی گیا اور اگر کوئی شخص شرائط اجراء حد موجود نہ ہونے کی وجہ سے حد قذف سے بچ نکلا تو وہ دنیا میں بھی فی الجملہ مستحق عذاب تو ٹھہرا آیت کے مصداق کے لئے یہ بھی کافی ہے۔ "

(سورۃ النور ،380/6،ط:مکتبہ معارف القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100518

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں