زید کی آن لائن قرآن اکیڈمی ہے زید عمر سے کہتا ہے کہ میں آپ کو ٹیوشن دوں گا اس ٹیوشن کی فیس کا 60 فیصد آپ کا ہوگا 40 فیصد میرا ۔ اس بات پر معاملہ طے ہو جاتا ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ یہ معاملہ شرعا درست ہے یا نہیں ؟ نیز عدم جواز کی صورت میں متبادل صورت کی طرف رہنمائی فرمائیں مذکور بالا صورت میں زید نے عمر کو ایک ٹیوشن دیا کچھ عرصہ بعد اس ٹیوشن کے واسطے عمر کو ایک دوسرا ٹیوشن مل گیا تو اس دوسرے ٹیوشن کی فیس بھی ان دونوں میں تقسیم ہوگی یا نہیں ؟ .رہنمائی فرمائیں
صورتِ مسئولہ میں زید کے لئے عمرو کو ٹیوشن مہیا کرنے پر ہر فیس میں سے چالیس فی صد لینے کا معاملہ کرنا شرعا جائز نہیں ہے،البتہ اگر زید عمرو سے کمیشن والا معاملہ کرلے بایں طور کہ یہ طے کرلے کہ وہ عمرو کو ٹیوشن مہیاکرےگااور اس پرعمرو سے اتنا (متعین) کمیشن لے گاتو عمرو کو ٹیوشن مہیا کرنے کی صورت میں صرف ایک بار زید کے لیے متعین کمیشن لیناجائز ہوگا،اس کے بعد جب عمرو کو اسی ٹیوشن سے براہِ راست خود دوسرا ٹیوشن مل جاتا ہے تو اس پر زید کے لیے مزید کمیشن لیناجائزنہیں ہے۔
فتاوٰی ہندیہ میں ہے:
"وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل وما تواضعوا عليه أن من كل عشرة دنانير كذا فذلك حرام عليهم."
(كتاب الإجارة، الباب السادس عشر في مسائل الشيوع في الإجارة، 450/4، ط:رشيدية)
الموسوعۃ الفقہیۃالکویتیۃ میں ہے:
"إذا اشترطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا وليس له أن يطالب بالأجرة .أما في الحالة الثانية وهي أن يكون الوكيل من أصحاب المهن الذين يعملون بالأجر لأن طبيعة مهمتهم تقتضي ذلك كالسمسار والدلال فيستحق الوكيل الأجرة حتى ولو لم يتفق عليهاوقت التعاقد، وحينئذ يجب له أجر المثل."
(حرف الواو، وکالة، أخذ الأجرة على الوكالة،91،92/45، ط: دارالسلاسل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144406100189
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن