بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

توبہ کے بعد دوبارہ گناہ کرنا / توبہ کی شرائط


سوال

 ایک ملازم روزانہ کی بُنیاد پر رشوت لیتا ہے، تاجر روزانہ کی بُنیاد پر جھوٹ بول کر مال بیچتا ہے اور روزانہ کی بُنیاد پر وعدہ خلافی کرتاہے اور لوگوں کا ناحق مال بھی کھاتا ہے۔ اور ہر نماز کے بعد یا رات کو اُٹھ کر تہجد میں معافی مانگ لیتا ہے۔ بات سمجھ سے باہر ہے کیا الله تعالی اُسے روزانہ کی بُنیاد پر معاف کر دیں گے یا جب وہ مستقل یہ کام چھوڑ دے گا؟

جواب

سب   گناہ توبہ سے معاف ہوسکتے ہیں بشرطیکہ توبہ سچی توبہ ہو،  چناں چہ اگر زندگی میں  کفر اور شرک سے بھی توبہ تائب ہوکر اسلام قبول کرلیا تو اس کا گناہ بھی معاف ہوجائے گا، البتہ اگر کفر اور شرک کی حالت میں مرگیا ہو تو  پھر اس کی بخشش نہیں ہوگی۔

نیز گناہوں سے معافی کے لیے سچی توبہ ضروری ہے،  جس کے تین رکن ہیں:

اول اپنے کیے پر ندامت اور شرم ساری، حدیث میں ارشاد ہے: "إنما التوبة الندم"  ”یعنی توبہ نام ہی ندامت کا ہے“۔

 دوسرا رکن توبہ کا یہ ہے کہ جس گناہ کا ارتکاب کیا ہے اس کو فوراً چھوڑ دے اور آئندہ کو بھی اس سے باز رہنے کا پختہ عزم و ارادہ کرے۔

تیسرا رکن یہ ہے کہ تلافی مافات کی فکر کرے، یعنی جو گناہ سر زد ہو چکا ہے اس کا جتنا تدارک اس کے قبضہ میں ہے اس کو پورا کرے، مثلاً نماز روزہ فوت ہوا ہے تو اس کو قضا کرے فوت شدہ نمازوں اور روزوں کی صحیح تعداد یاد نہ ہو، تو غور و فکر سے کام لے کر تخمینہ متعین کرے، پھر ان کی قضا  کرنے کا پورا اہتمام کرے، بیک وقت نہیں کر سکتا تو ہر نماز کے ساتھ ایک ایک نماز قضاءِ عمری کی پڑھ لیا کرے، ایسے ہی متفرق اوقات میں روزوں کی قضا  کا اہتمام کرے، فرض زکاۃ ادا نہیں کی تو گزشتہ زمانہ کی زکاۃ بھی یک مشت یا تدریجاً ادا کرے، کسی انسان کا حق لے لیا ہے تو اس کو واپس کرے، کسی کو تکلیف پہنچائی ہے تو اس سے معافی طلب کرے،  بندے کا حق اس کے معاف کیے بغیر معاف نہیں ہوسکتا،  حقوق العباد سے متعلق گناہوں سے توبہ کی تکمیل کے لیے یہ ضروری شرط ہے۔

لیکن اگر اپنے کیے پر ندامت نہ ہو، یا ندامت تو ہو مگر آئندہ کے لیے اس گناہ کو ترک نہ کرے، تو یہ توبہ نہیں ہے، گوہزار مرتبہ زبان سے توبہ توبہ کہا کرے۔

(مستفاد مع تغییر معارف القرآن 2/342دارالعلوم کراچی)

اور اگر پکی توبہ کے بعد بشری تقاضہ کی وجہ سے اتفاقا  دوبارہ گناہ سرزد ہوجائے تو دوبارہ اسی طرح پکی توبہ کرنےسے وہ گناہ معاف ہوجائے گا، لیکن اگر توبہ کرتے ہوئے مذکورہ شرائط کا خیال نہ رکھا جائے بلکہ بعد میں وہ گناہ کرنے ارادہ پھر بھی ہو تو یہ پکی سچی توبہ ہی نہیں ہے۔

نیز اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز سے وسیع ہے، وہ کسی کو بے شمار گناہوں کے باوجود بھی معاف کرکے جنت میں داخل کرسکتاہے، اور اس میں وہ حق بجانب ہوگا، تاہم یہ بھی ملحوظ رہے کہ رحمت اور معافی کی امید پر گناہوں میں مبتلا ہونا عقل مندی نہیں، حماقت ہے، حدیث پاک میں ایسے شخص کو بے وقوف کہا گیا ہے جو خواہشِ نفس کی پیروی کرے اور اللہ تعالیٰ سے امیدیں اور آرزو لگائے رکھے کہ وہ کریم ہے معاف کردے گا، جب کہ عقل مند اس شخص کو قرار دیا گیا ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور آخرت کی تیاری کرے۔ مسلمان کی شان یہ ہے کہ جس کام سے اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ ﷺ نے ناراضی کا اظہار فرمادیا، اس کام کے قریب بھی نہ جائے۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200040

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں