بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تصوف اور بیعت کی حقیقت اور حصول کا طریقہ


سوال

میرا تعلق ایک شریف  گھرانےسے ہے،الحمدللہ "دعوت و تبلیغ" کے ساتھ کچھ معمولی تعلق  کی وجہ سے میں عام طور پر کام کی جگہ پر اپنے ساتھیوں کے لیے راہِ راست پر روشنی ڈالتا  رہتاہوں، ستم ظریفی یہ ہے کہ لبرل ازم اور بہت سارے مشکوک اسکالرز کی وجہ سے ، جن کے پاس بظاہر اچھی تعلیمی پوسٹیں ہیں (کچھ انجینئرز ، ڈاکٹرز ، پروفیسرز ) ، لوگ ہمیشہ میرے ساتھ بحث کے موضوع کو کچھ فروعی  مسائل  میں تبدیل کرتے ہیں، میں  عام طور پر بحث کو ہلکے پھلکے انداز میں ختم کردیتا ہوں، لیکن ضعفِ ایمان  کی وجہ سے کچھ چیزیں میرے اندر شک بھی پیدا کرتی ہیں ،میں اپنے آپ کو بھی درست کرنا چاہتا ہوں ،اور ان کے تبصروں سے مایوس نہیں ہونا چاہتا ،میں نے حال ہی میں "تصوف "کے بارے میں سنا ہے،"تصوف" اور اپنی اصلاح کے لئے "بیعت " کرنا، براہِ مہربانی اس حوالہ سے میری ضرور رہنمائی فرمائیں! جزاک اللہ

جواب

اصلاحِ باطن کے متعلق جو باتیں قرآن  وسنت نے بتائی ہیں، ان کی تفصیلات  جاننے کا نام علم التصوف ہے، اس میں انسان کے دل اور نفس کوپاک اور صاف کرکے اس کی اصلاح کی جاتی ہے، تاکہ اللہ کا دھیان اور رضا حاصل ہوجائے۔ اس اصلاح کے دو اجزاء ہیں: 
    1:-ظاہری اصلاح         2:-باطنی اصلاح
ظاہری اصلاح سے مراد یہ ہے کہ ظاہری اعضاء سے صادر ہونے والے گناہ جیسا کہ جھوٹ، غیبت، چوری، زنا وغیرہ چھوٹ جائیں اور عبادات، معاملات اور معاشرت یعنی زندگی کے ہر شعبے میں اچھی صفات اپناکر مکمل دین پر عمل ہونے لگے۔
باطنی اصلاح سے مراد یہ ہے کہ عقائد درست ہوجائیں، اللہ کی ذات اور صفات پر ایمان مضبوط ہو جائے، دل ونفس کے گناہ اوربری صفات جیسے: حسد، بغض، کینہ، ریا اور تکبر وغیرہ کی اصلاح ہوجائے اور اللہ کی محبت اور اچھی صفات مثلاً: عاجزی، اخلاص، صبر، شکر، توکل، تسلیم و رضا اور خوفِ الٰہی وغیرہ حاصل ہوجائے۔ اکابرینِ اسلاف نے انہی اوصافِ جمیلہ کو اپنانے اور اوصافِ مذمومہ سے دامن بچانے کو ’’علم التصوف‘‘ کا مقصد بتایا ہے۔شاہ اسماعیل شہید ؒ فرماتے ہیں کہ:نفس کو اخلاقِ رذیلہ صفاتِ کمینہ سے خالی اور پاک کرنا،اوصافِ جمیلہ اور فضائل ِ حمیدہ سے مزین کرنا،اور عبادات شرعیہ کا اس طریق پر ادا کرنا جس طرح شارع کا مقصود ہے، یہی تصوف  اور ولایت کا حاصل ہے۔(صراط مستقیم،ص:20،ط:کراچی)حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا ؒ فرماتے ہیں کہ:
’’تصوف صرف تصحیحِ نیت کا نام ہے، اس کے سوا کچھ نہیں، جس کی ابتدا’’ إِنَّمَـا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ ‘‘ سے ہوتی ہے اور انتہا’’ اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّك تَرَاہُ ‘‘ہے۔‘‘

(آپ بیتی، جلداول، ص:۵۸، ۵۹، طبع: مکتبہ عمر فاروقؓ، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

اکابرین کرام ؒ کی تعریفات سے تقریباً یہی بات ثابت ہوتی ہے، جوتمہید میں نتیجہ کے طور پرعرض کی گئی، لہٰذا تصوف کوئی نئی یا اچھوتی چیز نہیں، بلکہ نفس وقلب کی اصلاح کر کے تمام ظاہری اور باطنی گناہوں کو چھوڑ کراللہ تعالیٰ کو راضی کرنااوراخلاقِ حمیدہ سے متصف ہونے کا نام ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں :

"وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ ." ﴿الأنعام: ١٢٠﴾

ترجمہ: ’’اور ظاہری گناہ اور پوشیدہ گناہ سب چھوڑ دو۔‘‘

صاحبِ تفسیر خازن ؒ اس آیتِ کریمہ کی تشریح میں فرماتے ہیں :

"اَلْمُرَادُ بِظَاہِرِ الْاِثْمِ اَفْعَالُ الْجَوَارِحِ وَبَاطِنَہٗ اَفْعَالُ الْقُلُوْبِ."

ترجمہ:’’ظاہری گناہ سے مراد اعضاء وجوارح کے اعمال اورباطنی گناہ سے مراد دل کے اعمال ہیں۔‘‘

ظاہری اور پوشیدہ گناہ چھوڑنا تصوف کا مقصد ہے۔
اب قاری کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تصوف ہم کس طرح حاصل کریں گے کہ ہمیں یہ مطلوبہ نتائج مل جائیں، تو اس کے لیے بھی شریعت کے واضح اصول موجود ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیامیں جتنے بھی دینی ودنیاوی علوم ہیں، ان کے سیکھنے کے لیے استاذ کے سامنے زانوئے تلمذ اختیار کرناضروری ہوتا ہے، دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کا قیام اسی واسطے عمل میں لایاجاتا ہے کہ وہاں پر اساتذہ کرام سے مدارس کی چاردیواری میں دینی ودنیاوی علوم کے متلاشی حضرات علم حاصل کرسکیں، بالکل اسی طرح علمِ تصوف سیکھنے کے لیے بھی شیخ کامل کے پاس جانا ضروری ہوتا ہے۔ شیخ (مرشد) جہاں پر سالکین کی تربیت کرتے ہیں، اس جگہ کو ’’خانقاہ ‘‘ کہا جاتا ہے، خانقاہ میں شیخ کے ساتھ مرید ایک عہد وپیمان کرتا ہے، جس کو تصوف کی اصطلاح میں ’’بیعت‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ بیعت ’’بیعتِ توبہ‘‘ کہلاتی ہے۔ مرید جب شیخ کے پاس بیعت کے لیے جاتا ہے تومرید شیخ کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر یہ عہد کرتا ہے کہ میں پچھلے تمام گناہوں سے توبہ تائب ہوتا ہوں اور آئندہ نیکوکاری کی زندگی اختیار کروں گا اور شیخ (مرشد) یہ عہد کرتا ہے کہ مرید کو اللہ تعالیٰ کے احکام اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنتوں کے مطابق زندگی گزارنا سکھاؤں گا۔ یہ ایک سنت عمل ہے اورحضور پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے، بخاری شریف میں ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ: ’’نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: جب کہ صحابہ کرام ؓ کی ایک جماعت ساتھ تھی، تم مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ آج کے بعد اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کوشریک نہیں ٹھہراؤگے، چوری نہیں کروگے، بدکاری نہیں کروگے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کروگے، ایک دوسرے پربہتان نہیں لگاؤگے اور کوئی بھی گناہ نہیں کروگے، پس جس نے اس بیعت میں وفا کی، اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے اور جس نے اس میں کوئی کوتاہی کی اور دنیا میں اس کو سزا مل گئی تو یہ اس کا کفارہ ہے اور اگر دنیا میں سزانہ ملی، بلکہ اللہ نے پردہ رکھا تو اس کا معاملہ اللہ پر ہے، چاہے تومعاف کردے اور چاہے تو سزادے، پس ہم نے بیعت کرلی۔‘‘ 
تصوف میں شیخ   و مرشد کی ضرورت  بیان کرتے ہوئے ایک بزرگ فرماتے ہیں :  : ایک طالب علم کمرۂ امتحان میں بیٹھا پرچہ حل کررہا ہوتا ہے، تو وہ اپنے گمان میں ہر سوال کو ٹھیک ٹھیک حل کرتا ہے (اگر اُسے پتہ ہو کہ میں فلاں غلطی کررہاہوں تووہ کرے ہی کیوں ؟)۔ جب طالب علم کا پرچہ استاذ کے ہاتھ میں آتا ہے تووہ بعض جوابات کو ٹھیک قرار دیتا ہے اور بعض کو غلط، تب طالب علم تسلیم کرتا ہے کہ اس سے غلطی ہوئی ۔اسی طرح سالک بھی اپنے زعم میں تحدیثِ نعمت سمجھ کر کسی بات کا اظہار کرتا ہے، مگر شیخ کامل پہچانتا ہے کہ یہ عُجب کی وجہ سے ہے۔ سالک اپنے خیال میں سخاوت کی وجہ سے مال خرچ کرتا ہے، مگر شیخ بتاتا ہے کہ یہ اسراف ہے۔ پیر ومرشد کے بغیر گمراہی کے گڑھے میں گرنے کا خطرہ ہوتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ مرشد کے سائے میں زندگی گزار کر سلوک کا راستہ طے کرے، تاکہ سالک (مرید) اپنی غلطی سے آگاہ رہے اورباطنی امراض سے بچتا رہے۔
اب اگر کسی کے ذہن میں یہ بات آجائے کہ شیخ (مرشد)کیسا ہوناچاہیے، تواس کے لیے ہمارے بزرگوں نے کئی شرائط بیان کی ہیں، حضرت مولانااشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’تسہیل قصد السبیل‘‘ میں شیخ کامل کے لیے چھ شرائط اور چھ نشانیاں لکھی ہوئی ہیں، اس کے علاوہ کچھ بزرگوں نے مزید کچھ نشانیاں بتائی ہیں، جن کا لبِ لباب یہ ہے کہ شیخِ کامل وہ ہوتا ہے جو متبعِ شریعت ہو اور جس کی صحبت میں بیٹھنے سے آپ کے دل میں اللہ کی محبت، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کی محبت، دین کی محبت، قرآن عظیم الشان کی محبت، اعمالِ صالحہ کی طرف رجوع اور اللہ کی طرف رجوع کا شوق پیدا ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ جس کے پاس گئے ہیں، وہ اللہ والا ہے، شیخِ کامل ہے، اس کی صحبت میں بیٹھ کر اپنی اصلاح کرواسکتے ہیں اور سلوک کا راستہ طے کرسکتے ہیں۔ 
خلاصۂ مضمون یہ ہے کہ تصوف کا مقصد اللہ کی رضاجوئی ہے، اللہ کی معرفت حاصل کرنا ہے، جوکہ ہر انسان سے مطلوب ہے، بلکہ انسان کی تخلیق ہی اسی واسطے کی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے تصوف وسلوک بھی ایک مستندراستہ ہے، جس پر چل کر انسان اپنے منزلِ مقصود تک پہنچ سکتا ہے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو اپنی رضا، اپنی لِقاء اور اپنی یاد والی زندگی نصیب فرمائے۔فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل جاننے کے لیے یہ لنک ملاحظہ فرمائیں:

’’تصوف‘‘ کیا ہے؟!

تصوف! قرآن وسنت کی روشنی میں (پہلی قسط)


فتوی نمبر : 144501100325

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں