بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تشہد میں درود شریف کے بعد متعدد دعائیں پڑھنا،گھڑی پہن کر نماز پڑھنا


سوال

1۔ کسی بھی  نماز میں التحیات،درود اور رب اجعلنی دعا کے بعد مزید دعائیں پڑھنے کی گنجائش ہے؟،اگر دوتین دعائیں نماز میں درود شریف کے بعد پڑھ لوں تو نماز ہوجائے گی؟

2۔میں نے سنا ہے کہ مرد کے لیےسونا،چاندی،پیتل،لوہااور ہر طرح کی میٹریل کی بنی ہوئی انگوٹھیاں یا گھڑیاں یا کچھ بھی پہننا حرام ہے،لیکن چاندی کی چھوٹی سی انگوٹھی پہن سکتا ہے۔اگر کوئی شخص سنہرے رنگ کی گھڑی جو کہ پیتل یا لوہے کی بنی ہوئی پہن کر نماز پڑھے تو کیا اس کی نماز قبول ہوگی؟اور گھڑی کا وزن بھی تقریباً 200یا 250 گرام ہو۔

جواب

1.واضح رہے کہ قعدہ اخیرہ میں درود شریف کے بعد تمام نمازوں (فرض، سنت غیرہ) میں قرآن و حدیث میں منقول دعائیں پڑھ سکتے ہیں، اگر کوئی ایسی دعا پڑھی جائے جو قرآن کریم اور احادیث سے ثابت نہ ہو اور عربی میں ہو تب بھی جائز ہے بشرطیکہ دعا ایسی چیز کی ہو جس کا اللہ کے علاوہ کسی اور سے طلب کرنا ممکن نہ ہو۔ نیز ایک سے زیادہ دعائیں  پڑھنا یا ایک دعاکو تکرار کے ساتھ پڑھنا بھی درست ہے۔

2۔واضح رہے کہ جو حکم لوہے اور دیگر دھاتوں کی چیزیں نہ پہننے سے متعلق مطلقاً وارد ہوا ہے اس کا تعلق انگوٹھی سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں فقہاءِ  کرام نے مردوں کے لیے صرف چاندی کی انگوٹھی (بشرطیکہ ایک مثقال کے اندر وزن ہو) پہننے کی اجازت دی ہے،(ایک مثقال  ساڑھے چار ماشے  یعنی۴گرام،۳۷۴ملی گرام  ہوتا ہے) اور عورت کے لیے سونے اور چاندی کی انگوٹھی پہننے کی اجازت ہے، اس کے علاوہ دیگر دھاتوں سے بنائی گئی انگوٹھی پہننے کی نہ مرد کو اجازت ہے نہ عورت کو۔

جہاں تک گھڑی پہننے کا تعلق ہے تو سونے اور چاندی کے علاوہ دیگر تمام دھاتوں سے بنی ہوئی گھڑی کا پہننا اور اس کا استعمال کرنا جائز ہےاور اسے پہن کر نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔

البحرالرائق میں ہے :

"(قوله: ودعا بما يشبه ألفاظ القرآن والسنة لا كلام الناس) أي بالدعاء الموجود في القرآن، ولم يردحقيقة المشابهة ؛ إذ القرآن معجز لا يشابهه شيء، ولكن أطلقها ؛ لإرادته نفس الدعاء ، لا قراء ة القرآن، مثل: ﴿ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا ﴾ [البقرة: 286] ﴿ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبِنَا ﴾ [آل عمران: 8] ﴿ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ ﴾ [نوح: 28] ﴿ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ﴾ [البقرة: 201] إلى آخر كل من الآيات، وقوله: والسنة، يجوز نصبه عطفاً على ألفاظ أي دعا بما يشبه ألفاظ السنة، وهي الأدعية المأثورة، ومن أحسنها ما في صحيح مسلم: «اللهم إني أعوذ بك من عذاب جهنم ومن عذاب القبر ومن فتنة المحيا والممات ومن فتنة المسيح الدجال»، ويجوز جره عطفاً على القرآن أو ما أي دعا بما يشبه ألفاظ السنة أو دعا بالسنة، وقد تقدم أن الدعاء آخرها سنة ؛ لحديث ابن مسعود: «ثم ليتخير أحدكم من الدعاء أعجبه إليه فيدعو به»".

(کتاب الصلاۃ1/ 349،ط:دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولايتختم) إلا بالفضة؛ لحصول الاستغناء بها، فيحرم (بغيرها، كحجر)، وصحح السرخسي جواز اليشب والعقيق، وعمّم منلا خسرو، (وذهب وحديد وصفر) ورصاص وزجاج وغيرها؛ لما مر".

(قوله: فيحرم بغيرها إلخ)؛ لما روى الطحاوي بإسناده إلى عمران بن حصين وأبي هريرة قال: «نهى رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم عن خاتم الذهب». وروى صاحب السنن بإسناده إلى عبد الله بن بريدة عن أبيه: «أن رجلا جاء إلى النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وعليه خاتم من شبه، فقال له: مالي أجد منك ريح الأصنام؟ فطرحه، ثم جاء وعليه خاتم من حديد، فقال: مالي أجد عليك حلية أهل النار؟ فطرحه، فقال: يا رسول الله من أي شيء أتخذه؟ قال: اتخذه من ورق، ولاتتمه مثقالاً». " فعلم أن التختم بالذهب والحديد والصفر حرام، فألحق اليشب بذلك؛ لأنه قد يتخذ منه الأصنام، فأشبه الشبه الذي هو منصوص معلوم بالنص، إتقاني. والشبه محركاً: النحاس الأصفر، قاموس. وفي الجوهرة: والتختم بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجل والنساء، (قوله: جواز اليشب) بالباء أو الفاء أو الميم، وفتح أوله وسكون ثانيه وتحريكه خطأ، كما في المغرب، قال القهستاني: وقيل: إنه ليس بحجر، فلا بأس به، وهو الأصح، كما في الخلاصة اهـ". 

(كتاب الحظر والاباحة،فصل في اللبس،6/ 359 ط:سعيد)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

سوال:اسلام میں چاندی کے علاوہ اور چیزیں حرام ہیں،تو گھڑی ہم لوگ استعمال کرتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟اس میں ہر چیز لوہے کی ہے۔

جواب :گھڑی اگرزیورکے طورپرنہ باندھی جائے،بلکہ وقت دیکھنے کے لیے ہو جیساکہ وہ اسی مقصدکے لیے بنائی گئی ہے  توممنوع نہیں، جس طرح لوہے کا خود اورتلوار اورزرہ  پہننااورلگاناممنوع نہیں؛ کیوں کہ وہ زیورنہیں، بلکہ ضرورت ہے۔

(360/19 ط:فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100264

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں