بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تسبیح تراویح اور لفظ العظمۃ کی تحقیق


سوال

ہمارے مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ اولا تو مروجہ تسبیح تراویح کسی حدیث سے ثابت نہیں۔دوسرے اس میں والعظمة کا لفظ ظاء کے سکون کے ساتھ کہنا جیسا کہ اشتہارات وغیرہ میں ہوتا ہےجائز نہیں ہے؛ کیوں کہ اس کا معنی ہڈی کا ٹکڑا ہے اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی ہے۔اس کو ظاء کے فتحہ کے ساتھ پڑھنا ہے جس کے معنی بزرگی کے ہیں۔کیا یہ بات درست ہے؟

جواب

1۔  تراویح  میں ہر  چار  رکعت کے بعد کوئی خاص  تسبیح یا دعا احادیث  سے  ثابت نہیں ہے،  تسبیحِ تراویح کے نام سے جو تسبیح ہمارے ہاں معروف ہے  وہ بعض فقہاء نے مختلف روایات کے الفاظ کو جمع کرکے عوام الناس کی سہولت کے لیے مرتب کردی ہے؛  لہٰذا اس کو لازم نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ  مطلقاً  کوئی بھی دعا یا تسبیح پڑھی جا سکتی ہے اور  جس طرح ہر چار رکعت کے بعد کوئی دعا پڑھ لینی چاہیے۔ 

لیکن تکلفات اور التزامات کے بغیر تسبیح کے مذکورہ کلمات

 ((«سُبْحَانَ ذِي الْمُلْكِ وَالْمَلَكُوتِ، سُبْحَانَ ذِي الْعِزَّةِ وَالْعَظَمَةِ وَالْقُدْرَةِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْجَبَرُوتِ، سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ، سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ، لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ نَسْتَغْفِرُ اللَّهَ، نَسْأَلُك الْجَنَّةَ وَنَعُوذُ بِك مِنْ النَّارِ»  ))

پڑھنے میں حرج نہیں ہے، فقہاءِ کرام نے جب اس دعا کا ذکر کیا ہے تو بغیر التزام اور غلو کے اسے کبھی پڑھ لینا چاہیے، نیز اکابر نے بھی اس کے التزام اور غلو   (مثلاً بآوازِ بلند اجتماعی طور پر پڑھنے، یا اسی کو لازم سمجھنے، اس سے کم یا زیادہ نہ پڑھنے) سے منع کیا ہے، نہ کہ مطلقاً اسے پڑھنے سے۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 46):

"(يَجْلِسُ) نَدْبًا (بَيْنَ كُلِّ أَرْبَعَةٍ بِقَدْرِهَا وَكَذَا بَيْنَ الْخَامِسَةِ وَالْوِتْرِ) وَيُخَيَّرُونَ بَيْنَ تَسْبِيحٍ وَقِرَاءَةٍ وَسُكُوتٍ وَصَلَاةٍ فُرَادَى، نَعَمْ تُكْرَهُ صَلَاةُ رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ".

"(قَوْلُهُ: بَيْنَ تَسْبِيحٍ) قَالَ الْقُهُسْتَانِيُّ: فَيُقَالُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ: «سُبْحَانَ ذِي الْمُلْكِ وَالْمَلَكُوتِ، سُبْحَانَ ذِي الْعِزَّةِ وَالْعَظَمَةِ وَالْقُدْرَةِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْجَبَرُوتِ، سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ، سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ، لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ نَسْتَغْفِرُ اللَّهَ، نَسْأَلُك الْجَنَّةَ وَنَعُوذُ بِك مِنْ النَّارِ»، كَمَا فِي مَنْهَجِ الْعِبَادِ. اهـ".

(شامي، كتاب الصلاة، باب الوتر و النوافل، مبحث صلاة التراويح، ٢/ ٤٦)

2۔  عربی زبان میں  لفظ( العَظَمة) ظاء پر زبر کے ساتھ ہو ،تواس  کا معنی ہے : بزرگی ، بڑائی، شان وشوکت، تو (ذی العزة والعظمة)کا معنی ہوا : عزت اور کبریائی والا ۔ جب کہ جزم کے ساتھ ( العَظْمة)کے معنی ہیں: ہڈی کا ٹکڑا، تو معنی بنے گا: ہڈی والا، اور  یقینًا یہ معنی اللہ تعالی کے حق میں بولنا بہت غلط ہے ۔ 

لیکن صرف لغت و معنی کا سہارا لے کر   لفظ« العظْمة» ("ظ" کے سکون کے ساتھ)  پڑھنے کو بالکلیہ  ناجائز اور گستاخی قرار دینا بھی درست نہیں ہے،  عربی قواعد کی رو سے  "ظ"  کے سکون کے ساتھ لفظ" العظمة"کی ادائیگی بھی پہلے معنی  (بزرگی وغیرہ کے معنی) میں کی جاسکتی ہے، اور اس صورت میں لفظ "العظمة"کو  ظ کی حرکت اور سکون دونوں طرح  پڑھنے کی گنجائش ہوگی۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

تسبیح تراویح میں لفظ العظمۃ کے تلفظ کی تحقیق

خلاصہ یہ ہے کہ  عوام الناس (العظمة)  کی ظاء  پر  اردو کے تلفظ سے متاثر ہونے  یا سہولت کی وجہ سے جزم پڑھتے یا لگاتے ہیں، اور اس طرح  کرنے کی عربی قواعد کی رو سے گنجائش نکلتی ہے؛ لہٰذا اسے مطلقًا خدا کی گستاخی یا ناجائز کہنا درست نہیں ہے۔ ہاں بہتر  یہی  ہے کہ اس لفظ (العظَمة)کو  ظاء پر زبر  کے ساتھ  پڑھا جائے۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201143

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں