کیا صحیح مسلم کی یہ حدیث صحیح ہے:" بکیر بن مسمار نے عامر بن سعد بن ابی وقاص سے ، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو حکم دیا ، کہا : آپ کو اس سے کیا چیز روکتی ہے کہ آپ ابوتراب (حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ) کو برا کہیں ؟ انھوں نے جواب دیا : جب تک مجھے وہ تین باتیں یاد ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے ان (حضرت علی رضی اللہ عنہ ) سے کہی تھیں ، میں ہرگز انھیں برا نہیں کہوں گا ۔ ان میں سے کوئی ایک بات بھی میرے لیے ہو تو وہ مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ پسند ہو گی ، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا ، آپ ان سے ( اس وقت ) کہہ رہے تھے جب آپ ایک جنگ میں ان کو پیچھے چھوڑ کر جا رہے تھے اور علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا تھا : اللہ کے رسول ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا :’’ تمھیں یہ پسند نہیں کہ تمھارا میرے ساتھ وہی مقام ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھا ، مگر یہ کہ میرے بعد نبوت نہیں ہے ۔‘‘ اسی طرح خیبر کے دن میں نے آپ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا :’’ اب میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘ کہا : پھر ہم نے اس بات ( کا مصداق جاننے ) کے لیے اپنی گردنیں اٹھا اٹھا کر (ہر طرف ) دیکھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ علی کو میرے پاس بلاؤ ۔‘‘ انھیں شدید آشوب چشم کی حالت میں لایا گیا ۔ آپ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا اور جھنڈا انھیں عطا فرما دیا ۔ اللہ نے ان کے ہاتھ پر خیبر فتح کر دیا ۔ اور جب یہ آیت اتری : ( تو آپ کہہ دیں : آؤ ) ہم اپنے بیٹوں اور تمھارے بیٹوں کو بلا لیں ۔‘‘ تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ، حضرت فاطمہ ، حضرت حسن ، اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور فرمایا :’’ اے اللہ ! یہ میرے گھر والے ہیں ۔‘‘
اگر یہ حدیث صحیح ہے تو پھر اس حدیث سے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ پر لعن طعن کروایا کرتے تھے ، لیکن اہل سنت والجماعت کے علماء کہتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کرتے تھے ۔ براہ کرم وضاحت فرما دیں ۔
"صحیح مسلم" شریف کی جس روایت کے بارے میں دریافت کیا گیا ہے وہ محدثین کے نزدیک صحت کے درجہ میں ہے۔
شارحین نے اس جملہ کے دو مطلب بتائے ہیں:
1۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس جملے کا پس منظر یہ تھا کہ: انہوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو بعض ایسے لوگوں کے درمیان دیکھا تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہہ رہے تھے ، حضرت سعد رضی اللہ عنہ اُن کو اِس فعل سے منع نہیں کرسکے تھے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سوال کے دو مقصد تھے۔
2۔لفظ " سب" صرف برا بھلا کہنے کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے علاوہ دیگر معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے ، جیسے : عار دلانا، دوسرے کی رائے کو غلط ٹہرانا اور اپنی رائے کو درست کہنا، یہاں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس جملے کا مقصد یہ تھا کہ آپ ان کی رائے کی غلطی کو لوگوں کے درمیان کیوں ظاہر نہیں کرتے، اور جو ہماری رائے ہے وہی درست ہے۔
شراحِ حدیث کے یہاں دوسری توجیہ پسندیدہ ہے۔
مذکورہ بالا دونوں توجیہات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نہ خود گالم گلوچ کرتے تھے اور نہ دوسروں کو اس کا حکم دیتے تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالم گلوچ کرنا ، ان کو برا بھلا کہنا بنو امیہ کے بعض جاہل قسم کے لوگوں کا شیوا تھا ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جنہیں صحابیت کا مرتبہ حاصل تھا، جو دین داری ، احسان نوازی اور کریمانہ اخلاق کے حامل تھے، ان کا دامن ایسی باتوں سے پاک ہے، مزید برآں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت علی کے عظیم مرتبہ سے واقف اور ان کے فضیلتوں کے معترف تھے۔
اس سوال میں کنیت ابو تراب کو ذکر کرنا ، معاذ اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر طعن نہیں تھا، بلکہ اس کنیت کو حضرت علی رضی اللہ عنہ پسند فرمایا کرتے تھے۔
"المنہاج شرح صحیح مسلم" میں ہے:
"قوله (إن معاوية قال لسعد بن أبي وقاص ما منعك أن تسب أبا تراب) قال العلماء: الأحاديث الواردة التي في ظاهرها دخل على صحابي يجب تأويلها، قالوا: ولا يقع في روايات الثقات إلا ما يمكن تأويله فقول معاوية هذا ليس فيه تصريح بأنه أمر سعدا بسبه، وإنما سأله عن السبب المانع له من السب كأنه يقول: هل امتنعت تورعا أو خوفا أو غير ذلك: فإن كان تورعا وإجلالا له عن السب فأنت مصيب محسن، وإن كان غير ذلك فله جواب آخر. ولعل سعدا قد كان في طائفة يسبون فلم يسب معهم وعجز عن الإنكار وأنكر عليهم فسأله هذا السؤال. قالوا: ويحتمل تأويلا آخر: أن معناه: ما منعك أن تخطئه في رأيه واجتهاده؟ وتظهر للناس حسن رأينا واجتهادنا وأنه أخطأ".
(المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، أبو زكريا النووي، المطبعة المصرية بالأزهر، الطبعة الأولى، كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه 1349هـ-1930م 175،176/15)
"اکمال المعلم بفوائد مسلم" میں ہے:
"قال الإمام - وفقه الله -: مذهب أفاضل العلماء أن ما وقع من الأحاديث القادحة فى [حديث] عدالة [بعض] الصحابة، والمضيفة إليهم ما لا يليق بهم، فإنها ترد ولا تقبل إذا كان رواتها غير ثقات، فإن أحب بعض العلماء تأويلها قطعاً للشغب نزل وراح، وإن رواها الثقات تأولت على الوجه اللائق بهم إذا أمكن التأويل، ولا يقع فى روايات الثقات إلا ما يمكن تأويله، ولابد أن يتأول قول معاوية هذا، فتقول: ليس فيه تصريح بأنه أمره بسبه، وإنما سأله عن السبب المانع له من السب، وقد سئل عن مثل هذا السؤال من يستجيز سب المسؤول عنه [وسئل عنه] من لا يستخبره.
فقد يكون معاوية رأى سعدًا بين قوم يسبونه، ولا يمكن الإنكار عليهم، فقال: ما منعك أن تسب أبا تراب؛ ليستخرج منه مثل ما استخرج مما حكاه عن النبى عليه الصلاة والسلام فيكون له حجة على من سبه ممن ينضاف إليه من غوغاء جنده، فيحصل على المراد على لسان غيره من الصحابة، ولو لم يسلك هذا المسلك وحملنا عليه أنه قصد ضد هذا مما يثيره [عنه] الموجدة، ويقع فى حين الحنق، لأمكن أن يريد السب الذى هو بمعنى التغيير للمذهب والرأى، وقد سمى ذلك فى العرف سباً، ويقال فى فرقة: إنها تسب أخرى إذا سمع منهم أنهم أخطؤوا فى مذاهبهم، وحادوا عن الصواب، وأكثروا من التشنيع عليهم، فمن الممكن أن يريد معاوية من سعد بقوله: " ما منعك أن تسب أبا تراب" أى يظهر للناس خطأه فى رأيه، وإن رأينا ما نحن عليه أشد وأصوب. هذا مما لا يمكن أحد أن يمنع من احتمال قوله له، وقد ذكرنا ما يمكن أن يحمل قوله عليه ورأيه فيه جميل أو غير جميل فى هذين الجوابين. فمثل هذا المعنى ينبغى أن يسلك فيما وقع فى أمثال هذا".
(إكمال المُعْلِم بفوائد مسلم، للقاضي عياض (ت544ه)، ط: دار الوفاء- مصر، الطبعة الأولى، 1419ه-1998م، كتاب فضائل الصحابة رضي الله عنهم، باب من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 415،416/7)
"اکمال اکمال المعلم " میں ہے:
"قوله: (في الآخر ما منعك أن تسب أبا تراب)... (ط) قول معاوية هذا يدل على أن بني أمية كانوا يسبون علياً، وينقصونه باعتقادهم أنه أعان على قتل عثمان، وأنه كان متمكناً من نصرته، وكل ذلك ظن كاذب وتأويل باطل، غطى التعصب وجه الصواب وحاشاه من ذلك، وقد أقسم أنه لم يفعل شيئًا من ذلك. وأما ترك نصرته، فعثمان رضي الله عنه أسلم نفسه ومنع من نصرته، وأما ما ذكروا أن عليًا رضي الله عنه منع أن يقتص من قاتله فأقوال كاذبة، والتصريح بالسب وقبيح القول إنما كان يفعله جهال بني أمية وسفلتهم. وأما معاوية فحاشاه من ذلك لما كان عليه من الصحبة والدين والفضل وكرم الأخلاق، وما يذكر عنه من ذلك فكذب، وأصح ما في ذلك قوله لسعد هذا، وتأويله ما ذكر عياض، وقد كان معاوية معترفاً بفضل علي وعظيم قدره ويدل عليه ما تقدم".
(إكمال إكمال المُعَلِّم، محمد بن خليفة الوشتاني الأبي (ت827ه أو 828ه)، دار الكتب العلمية- بيروت، الطبعة الأولى، 1415ه-1994م، باب فضائل الصحابة رضي الله تعالى عنهم، باب من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 228،229/8)
"الناہیہ عن طعن امیر المؤمنین معاویہ" میں ہے:
"ولا شك أن الأمر بسب علي خطيئة فاحشة.
والجواب: ذكر في شرح صحيح مسلم يجب تأويله: إما بأن المراد بالسب إظهار خطأ اجتهاده وصواب اجتهادنا، وإما بأنه سمع قومًا يسبونه، فأراد كفهم عن سبه، بإظهار فضله على لسان سعد، وإما بأنه ليس فيه الأمر بل سؤال عن السبب المانع عنه، وتَكَنِّيْهِ - رضي الله عنه- بأبي تراب ليس طعنًا؛ فإنه كان يحب أن يُكَنَّى به".
(الناهية عن طعن أمير المؤمنين معاوية، عبد العزيز بن أحمد الپڑهاڑوی، ط: غراس، الطبعة الأولى، 1422ه، تحقيق: أحمد بن عبد العزيز التويجري، 72)
مزید تفصیل کے لیے سیرت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ، تالیف: مولانا نافع رحمہ اللہ ، ص 492تا 514 کا مطالعہ فرمائیں۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503101134
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن