میں لاہور سے راولپنڈی ٹرین میں سفر کر رہا تھا، ٹرین چھ بجے چلی تھی اور اس پورے سفر کے دوران مغرب کا سارا وقت گزر جانا تھا، اس وجہ سے میں نے ٹرین میں ہی مغرب کے وقت میں مغرب کے تین فرض ادا کرلیے، ٹرین تیزی سے چل رہی تھی، جس کی وجہ سے میں نے پہلی رکعت میں قیام کیا (یعنی پہلی رکعت میں نے کھڑے ہو کر پڑھی)، لیکن ٹرین کی رفتار تیز ہونے کی وجہ سے میں قیام کے دوران کافی ہِل رہا تھا اور میرے لیے سیدھا کھڑا ہونا بہت مشکل ہورہا تھا، ایک دو مرتبہ تو مجھے ساتھ میں ستون کا بھی سہارا لینا پڑا، اس عذر کی وجہ سے میں نے مغرب کی باقی دو رکعتیں بیٹھ کر ہی ادا کرلیں (جس طرح نوافل بیٹھ کر پڑھے جاتے ہیں)۔ سوال یہ پوچھنا تھا کہ کیا اس عذر کی وجہ سے باقی دو رکعتیں بیٹھ کر ادا کرنا درست تھا؟ یا مجھے یہ نماز لوٹانی ہوگی؟
واضح رہے کہ ٹرین میں نماز ادا کرنے میں بھی استقبالِ قبلہ اور قیام شرط ہے، ان دو شرطوں میں سے کوئی ایک شرط اگر فوت ہوجائے تو فرض اور واجب نماز ادا نہیں ہوگی، البتہ سنن ونوافل قیام کے بغیر بھی ادا ہوجائیں گی، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جب آپ نے ٹرین میں مغرب کی فرض نماز کی آخری دونوں رکعتیں بیٹھ کر پڑھی ہیں تو ایسی صورت میں آپ کے ذمہ یہ نماز لوٹانا لازم ہے۔
احسن الفتاوٰی میں ہے:
"ریل گاڑی اور بس میں کھڑے ہوکر قبلہ رخ نماز پڑھیں گے، گرنے کا خطرہ ہو تو کسی چیز سے ٹیک لگا کر یا ہاتھ سے کوئی چیز پکڑ کر کھڑے ہوں۔۔۔۔اگر کسی وجہ سے قیام یا استقبالِ قبلہ کا فرض کسی طرح بھی ادا نہ ہو سکے تو اُس وقت جیسے بھی ممکن ہو نماز پڑھ لے، مگر بعد میں ایسی نماز کا اعادہ کرے۔ فقط واللہ تعالٰی اعلم۔"
(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، عنوان: ریل گاڑی اور بس میں نماز، 88/4، ط: دار الاشاعت)
فتاوٰی محمودیہ میں ہے:
"سوال: ریل گاڑی میں اگر بھیڑ ہو تو بیٹھ کر فرض نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب حامدًا ومصلیًا:
اگر کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ہے تو بیٹھ کر پڑھ لے؛ تاکہ قضاء نہ ہو، پھر جگہ ملنے پر کھڑے ہو کر اعادہ کرلے۔ فقط واللہ سبحانہ تعالٰی اعلم۔"
(کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، عنوان: ریل گاڑی میں فرض نماز بیٹھ کر پڑھنا، 555/5، ط: ادارہ الفاروق)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144408101511
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن