بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹرک خریدنے کے بعد دوسرے کسی کو اس میں شریک کرنا/ ٹرک کرایہ پر دینے کی دو جائر صورتیں


سوال

 میں نے ایک ٹرک خریدا جس کی کل قیمت 21 لاکھ روپے تھی،  جوکہ میں نے ادا کی،  پھر ایک شخص کو اس ٹرک میں اس بات پر شریک کیا کہ وہ مجھے 21 لاکھ اس ٹرک سے کما کر ادا کرے گا  اور پھر ہم دونوں اس ٹرک میں آدھے آدھے کے حصے دار ہوں گے اور  جو بھی پرافٹ ہوگا آدھا آدھا ہوگا،  کیا یہ معاملہ درست ہے ؟اور اگر درست نہیں تو درستی کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ اور فریق ثانی اسی ٹرک کا ڈرائیور بھی ہے، کیا وہ الگ سے اپنی تنخواہ لے سکتا ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ نے ٹرک خریدنے کے بعد  دوسرے شخص کے ساتھ جو معاملہ کیا ہے، وہ درست نہیں،اس  کو ختم کرنا ضروری ہے، البتہ  اس  معاملہ کو ختم کر کے اجارہ کا معاملہ کیا جائے، جس کی دو صورتیں ممکن ہیں:

1۔یہ کہ  آپ دوسرے  فریق کو  یہ ٹرک یومیہ یا ماہانہ بنیاد پر (یا جو بھی باہمی رضامندی سے طے ہو کی) کرایہ پر دے دیں، جو کرایہ طے ہو وہ  آپ کو معاہدے کے مطابق دے دیا کرے اور باقی ٹرک چلا کر جو نفع حاصل ہوگا، وہ دوسرے فریق کا ہوگا۔

2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ دوسرے فریق کو ٹرک چلانے کے لیے کرایہ پر رکھ لیں کہ آپ اس کو یومیہ یا ماہانہ بنیاد پر اس کی اجرت طے کر کے دے دیا کریں اور ٹرک چلا کر جو نفع حاصل ہوگا، وہ آپ کا ہوگا۔ باقی چاہے پہلی صورت ہو، یا دوسری صورت بہر صورت ٹرک آپ کا ہی رہے گا۔

التعريفات ميں ہے:

"البيع: في اللغة مطلق المبادلة، وفي الشرع: مبادلة المال المتقوم بالمال المتقوم، تمليكًا وتملكًا."

(التعریفات، ص:48، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(أما تفسيرها شرعا) فهي عقد على المنافع بعوض، كذا في الهداية. (وأما) (ركنها) فالإيجاب والقبول بالألفاظ الموضوعة في عقد الإجارة."

(کتاب الاجارۃ، ج:4، ص:409، ط: دار الفکر)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(ولا تصح مفاوضة وعنان) ذكر فيهما المال وإلا فهما تقبل ووجوه (بغير النقدين، والفلوس النافقة والتبر والنقرة) أي ذهب وفضة لم يضربا (إن جرى) مجرى النقود (التعامل بهما) وإلا فكعروض.

قوله: بغير النقدين) فلا تصحان بالعرض ولا بالمكيل والموزون والعدد المتقارب قبل الخلط بجنسه، وأما بعده فكذلك في ظاهر الرواية فيكون المخلوط شركة ملك وهو قول الثاني.وقال محمد: شركة عقد، وأثر الخلاف يظهر في استحقاق المشروط من الربح، وأجمعوا أنها عند اختلاف الجنس لا تنعقد نهر."

(كتاب الشركة، ج:4، ص:310، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406101997

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں