بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹرون نیٹورک کمپنی کے آن لائن بزنس کے احکام


سوال

 سوال یہ ہے  کہ آن لائن بزنس کے حوالے سے ایک کمپنی جس کا نام ٹرون نیٹ ورک ہے ،جو لوگوں کو آن لائن کمانے کا موقع فراہم کر رہی ہے ،وہ اس طرح کہ وہ ایڈورٹائزمنٹ مشین کو سیل آؤٹ کرتے ہیں ،اور دوسرا آمدنی کا ذریعہ جو وہ بیان کرتے ہیں ،وہ یہ کہ پبلک ایریا میں ایڈز مشین فکس کرتے ہیں جس پر ایڈز چلاۓ جاتے ہیں، جس کمپنی یا برینڈ کا اشتہار چلتا ہے وہ پیسے بھی ادا کرتا ہے اپنے ایڈز چلوانے کے،اسی طرح مشینز کی تعداد   بڑھانے کے لیے لوگوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ بھی اس میں اپنا پیسہ انویسٹ کریں،جس کا نفع فیصد کے حساب سے ملتا ہے اور یہ فیصد کبھی کم بھی ہو سکتا ہے تو کبھی زیادہ، وہ مارکیٹ پر ڈیپینڈ کرتا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ آئی ڈی بنائی جاتی ہے  ،جس میں پیسہ ڈیپازٹ کرنا ہوتا ہے،جیسے کہ آپ نے پانچ ہزار انویسٹ کیا تین دن کے لیے تو آپ کو تین دن بعد 480  روپے نفع ملے گا  یعنی آپ کے لگاۓ گئے پیسوں سے تین دن تک مشین پر ایڈز چلاۓ جائیں گے اور تین دن بعدآپ کو اور دیگر لوگوں کے لگاۓ گئے پیسوں کو منافع کے ساتھ واپس کردیا جاتا ہے، تو آیا یہ جائز ہے یا ناجائز؟ اور اسی میں اگر آپ دوسرے لوگوں کو اپنے توسط سے جوائن کرواتے ہیں، جو ایک ٹیم کے طور پر کام کرتے ہیں، تو اس ٹیم کا بھی فیصد کے حساب سے آپ کو کمیشن ملتا ہے۔ یہ لوگ  آنے والے چند ماہ میں اسلام آباد اور لاہور میں بھی اپنی مشینیں لگانے جا رہے، یعنی اپنے کام کو بڑھا رہے ہیں، تو کیا اس میں انویسٹمنٹ کرسکتے ہیں؟  جائز ہے یا نہیں؟ براۓ کرم مدلل اور مفصل جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

(1)صورتِ مسئولہ میں   اس    کمپنی کے معاملات ہماری معلومات کے مطابق مفاسد پر مشتمل  ہیں جیسا کر اشتہارات میں جاندار کی تصاویر دکھانا اور اس طرح مو سیقی کا استعمال ان اشتہارات میں جو کہ سراسر گناہ ہے،لہذا اس کمپنی کے سا تھ خریدو فروخت اور سرما یہ کاری کرنا اور اس کا رکن بننا نا جائزہے ۔

(2) دوسرا کام اس کمپنی کا کہ آپ کسی اور کو اس کمپنی سے جوڑیں اور اس کے کا م کا بھی آپ  کو  نفع ملتارہے تو یہ بھی جائز  نہیں ہے ۔

شرح صحیح البخاری (لابن البطال میں ہے:

"/٤144 - فيه: ابن عباس، أتاه رجل فقال: إن معيشتى من صنعة يدى، وإنا أصنع هذه ‌التصاوير، فقال ابن عباس: لا أحدثك إلا ما سمعت من رسول الله (صلى الله عليه وسلم) يقول، سمعته يقول: (من صور صورة، فإن الله معذبه حتى ينفخ فيها الروح، وليس بنافخ فيها أبدا) ، فربا الرجل ربوة شديدة، واصفر وجهه، فقال: ويحك، إن أبيت إلا أن تصنع فعليك بهذه الشجرة كل شىء ليس فيه روح) . قال المهلب: إنما كره هذا من أجل أن الصور التى فيها الأرواح كانت معبودة فى الجاهلية، فكرهت كل صورة وإن كانت لا فىء لها ولا جسم؛ قطعا للذريعة، حتى إذا استوطن أمر الإسلام وعرف الناس من أمر الله وعبادته ما لا يخاف عليهم فيه من الأصنام والصور."

(كتاب البيوع،باب بيع ‌التصاوير التى ليس فيها أرواح وما يكره من ذلك،٣٤٧/٦،دار النشر: مكتبة الرشد - السعودية، الرياض)

المفاتيح في شرح المصابيح میں ہے:

"2035 - وعن أبي أمامة - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "لا تبيعوا القينات ولا تشتروهن ولا تعلموهن، وثمنهن حرام، وفي مثل هذا أنزلت: {ومن الناس من يشتري لهو الحديث} ". (ضعيف).

قوله: "لا تبيعوا القينات"، (القينات) جمع: قينة، وهي ‌الجارية ‌المغنية، وسبب النهي: أن الغناء حرام؛ لأنها مهيجة لميل الزنا في الطباع، وخاصة إذا كانت بصوت النساء، وإذا كان الغناء سبب الوقوع في الزنا يكون حراما.قوله: "ولا تعلموهن"؛ أي: ولا تعلموهن هذه الصنعة.

قوله: "وفي هذا أنزلت: {ومن الناس من يشتري لهو الحديث} "، قال مكحول: من اشترى جارية ضرابة ليمسكها لغنائها وضربها مقيما حتى يموت لم أصل عليه؛ لأن الله تعالى يقول: {ومن الناس من يشتري لهو الحديث} [لقمان: 6].أراد مكحول بقوله: ضرابة؛ أي: تضرب الطنبور وغيره من آلة الملاهي."

( كتاب البيوع،باب الكسب وطلب الحلال،٣٨٣/٣،ط:ْدار النوادر)

فتاوی شامی میں ہے :

"في الزيلعي لكنه قال بعده وكذا لا يكره بيع ‌الجارية ‌المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة؛ لأنه ليس عينها منكرا وإنما المنكر في استعمالها المحظور. اهـ.

قلت: لكن هذه الأشياء تقام المعصية بعينها لكن ليست هي المقصود الأصلي منها، فإن عين الجارية للخدمة مثلا والغناء عارض فلم تكن عين النكر، بخلاف السلاح فإن المقصود الأصلي منه هو المحاربة به فكان عينه منكرا إذا بيع لأهل الفتنة، فصار المراد بما تقام المعصية به ما كان عينه منكرا بلا عمل صنعة فيه."

(كتاب الجهاد،مطلب المعصية تبقى بعد الردة،باب البغاة :4/268:ط:دار الفكر)

خلاصۃ الفتاوی میں ہے:

"وفي الأصل أجرة السمسار والمغارى والحمامي والصكاك وما لا تقدر فيه للوقت ولا مقدار لما يستحق با لعقد لكن للناس فيه حاجة جاز وان كان في الاصل فاسدا."

(كتاب الإجارات جنس آخر في المتفرقات :٣/١١٦:ط  :مكتبة رشيدية )

فتاوی شامی میں ہے :

"سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار فقال : أ رجو انه لا باس به وان كان في الأصل  فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز."

(کتاب الإجارة مطلب في أجرة الدلال :6/63:ط سعيد)

الموسوعة الفقهیة   میں ہے :

"وقال المحلي: صورة القمار المحرم التردد بين أن يغنم وأن يغرم".

 (۳۹/۴۰۴، طبع الوزارة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101993

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں