بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ میں تصرف کاحکم


سوال

اگر بھائی نے اپنی بہنوں کو والد صاحب کی وراثت سے حصہ نہ دیا ہو ،اور ان میں سے ایک شادی شدہ بہن نے مطالبہ بھی کیا ہو ،ان سب کی شادی ہو چکی ہو سوائے ایک چھوٹی بہن کے تو کیا اس وراثت کے گھر کی چیزیں اس چھوٹی بہن کے لیے استعمال کرنا جائز ہے ،اور اگر نہیں جائز تو اس کے لیے کیا حکم ہوگا ،جبکہ اس کا وراثت کی تقسیم کا کوئی اختیار نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں بھائی  پر لازم ہے  کہ بہنوں کو ان کا حق اورحصہ  جلدازجلددیدے، ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا ، حدیثِ مبارک میں اس پر  بڑی وعیدیں آئی ہیں ، حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی،  ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے  ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔

 غیر شادی شدہ بہن    کا بھی والد کے ترکہ میں حصہ ہے  ،لہذا بہن کا ترکہ کے گھر میں رہناجائز ہے ،اوراپنے حصے کی حدتک ترکہ میں تصرف  کرسکتی ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»". 

(مشكاة المصابيح، 1/254، باب الغصب والعاریة، ط: قدیمی)

           وفیہ ایضاً: 

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه". 

( باب الوصایا، الفصل الثالث،266/1، قدیمی)

دررالحكام في شرح مجلة الاحكام ميں هے :

لو تصرف أحد الشركاء تغلبا في المال المشترك كالدار والحانوت مدة بدون إذن شريكه مستقلا واستعمله بنفسه، فليس للشريك الآخر أخذ أجرة حصته؛ لأنه استعمله على أنه ملكه، كما أنه ليس له أن يطالب بسكنى الدار وحده بقدر ما سكنها شريكه انظر المادة (1083) حتى أن الساكن إذا دفع إلى شريكه أجرة حصته يزعم أنها تلزمه فله استردادها بعد ذلك انظر المادة (97)ويفهم من هذه المادة أن لأحد الشريكين أن يسكن المال المشترك سواء أكان شريكه حاضرا أو غائبا. إذ يتعذر عليه الاستئذان في كل مرة فكان له أن يسكن في حال غيبته.

ثانيا: إذا تسبب أحد الشريكين بتعطيل المال المشترك، فليس للشريك الثاني أجرة.

ثالثا: إذا آجر أحد الشريكين حصته من شريكه سنة وسكنها المستأجر سنتين، فلا تلزم أجرة للسنة الثانية. وحكم الأجنبي الذي يخلف الشريك فهو كالشريك أيضا ويستفاد من المثال أن ذلك خاص باستعمال الشريك بالذات، ولا دخل لإيجاره من آخر؛ لأن الشريك إذا لم يستعمل المال المشترك مستقلا بنفسه وأجره كله من آخر وأخذ أجرته لزمه رد أجرة شريكه إليه. مثلا لو آجر أحد الشركاء الحمام المشترك بين ثلاثة ولكل منهم ثلثه من آخر وأخذ أجرته لزمه أن يعطي لشريكيه ثلثي الأجرة وسنفصل هذه المسألة وتوضح في المادة (1077) لكن إيجار أحد الشركاء المال المشترك على هذا الوجه أو إعارته غير جائزة ديانة. إذ التصرف في ملك الغير بلا إذن حرام، ولا يمنع قضاء إذ الإنسان لا يمنع من التصرف فيما بيده إذا لم ينازعه فيه أحد (التنقيح، رد المحتار، علي أفندي)

(الفصل الاول في المواد المتعلقۃفی مال استعمل ۔۔الخ،691/1،دار الجيل)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144503101282

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں