بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ میں اضافہ کی صورت میں ہر وارث حقدار ہو گا


سوال

 والدکی وفات کے بعد اولاد نے ترکہ (تقریباایک کروڑ ، یہ اولاد اور باپ دونوں کما ئی تھی) کو تقسیم کیے  بغیر کاروبا کو مزید آگے بڑھایا، اس میں تقریباً دس سال گزر گئے، مرحوم نے  8 بیٹے،دو بیٹیاں اور ایک بیوہ کو  چھوڑا،  ان میں دوبیٹے مدرسے میں پڑھتے تھے بعد میں یہ دو لڑکے بھی کاروبار شروع کرنے لگے، لیکن منافع نہ ہونے کی وجہ سے باقی بھائیوں  نے ان کے کاروبار کو ختم کردیا اور ان دو میں سے ایک کوگھر کی دیکھ بھال  کے لیے رکھا،  اب ان کے کاروبار میں مزید اضافہ ہوگیا ہے،  اب پوچھنایہ ہے :

1:  میراث کو کس اعتبار سے تقسیم کریں؟  کیا اس ایک کروڑ میں یا ابھی منافع کے بعد؟

2:اگر منافع کو بھی تقسیم کرنا ہے تو بہنوں میں بھی یہ منافع تقسیم ہوگا ؟حالانکہ یہ کمائی صرف ان بعض بیٹوں  کی ہے اور اگر نہیں دیناہے تو کیا پھر ان بھائیوں کو دینا جائز ہے جنہوں نے نہیں کمایا ہے،  حالانکہ یہ مطالبہ کرتےہیں کہ یہ کمائی ہمارے پیسوں سے بھی ہوئی ہے ، اس لیے  کہ سرمایہ میں ہمارا بھی مال تھا اور اسلۓ کہ ہم تو آپ لوگوں کے تابع تھے،  ورنہ تو پہلے بتادیتے اور ہمارا مال علیحدہ کردیتے۔

مذکورہ مسئلہ کا تفصیلی جواب عنایت فرمائیں ۔

جواب

صور تِ  مسئولہ میں والد کے انتقال کے بعدوالد کے ترکہ  میں جتنی رقم اور جتنی جائیدا د ہیں   ان سب میں تمام شرعی ورثاء اپنے اپنے حصے کے مطابق  حقدار ہیں ، والد کے انتقال کے بعد     ترکہ  منقولہ وغیر منقولہ میں جتنا اضافہ ہو ا ہے اس میں  سب ورثاء حقدارہیں چاہے وہ کاروبار میں شامل تھے یا نہیں ، اسی طرح بہنیں بھی ہر صورت میں موجودہ نفع کے ساتھ ترکہ میں حقدار ہیں ،لہذا ہر ایک بہن اور بھائی ترکہ کی  موجودہ  رقم  نفع کے ساتھ جتنی بنتی ہے اس میں حقدار  ہیں  ہر ایک  کو اس کا شرعی حق دیا جائے اگر کسی کا شرعی حق نہیں دیا گیا اور حق دبا لیا گیا تو غاصب شمار ہوں گے  ، دنیا میں نہیں دیا تو آخرت میں بدترین عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا  ۔

حدیث مبارکہ میں ہے :

"من قطع میراث وارثه قطع اللہ میراثہ من الجنة یوم القیامة".

(مشکوۃ،باب الوصايا،الفصل الثالث،1/266،قديمی).

ترجمہ:حضور کريم صلی ا للہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے  وارث کی میراث کاٹے گا اللہ تعالی  قیامت کے دن اس کی جنت سے میراث کاٹ لے گا ۔

(مظاہر حق باب الوصايا،الفصل الثالث،3 /235)

فتاوی شامی میں ہے :

"لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي".                                         

 (فصل في الشركة الفاسدة،ج4/325،ط:سعيد)

شرح المجلۃ میں ہے:

 "تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم".

(الفصل الثاني في كيفية التصرف في الأعيان المشتركة ،المادۃ ۱۰۷۳:ج۴/۱۴ط:رشیدیہ )

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144311102234

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں