بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کی مال کو کاروبار میں لگا کراس سے حاصل کردہ منافع کاحکم


سوال

میرے شوہر کا 15 سال پہلے انتقال ہوا ہے،شوہر کے والدین کا انتقال ان سے پہلے ہواتھا،میرے تین بچے ہیں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ،شوہر اسکول ٹیچر تھے،اس کی پنشن مجھے ملتی ہے،اس کے علاوہ کچھ پیسے ملے تھے جس سے شوہرکے انتقال کے ایک سال بعد بڑی بیٹی کی شادی کرائی اور باقی دونوں بچوں کی پرورش اور پڑھائی میں خرچ ہوئے،شوہر کے تین پلاٹ تھے ان میں سے ایک  بیچ کر میں نے دوسری بیٹی کی شادی کروائی ،اور ایک پلاٹ جو میرے نام تھا اس کو  بیچ کراس کی رقم کسی کے ساتھ کاروبار میں لگائی جو تین چار مہینے میں ہمیں منافع دیتا ہے توہم اس کو خرچ کرلیتے ہیں،اب پوچھنایہ کہ:

1۔اس کاروبار سے ملنے والے منافع میں بیٹیوں کا حصہ ہےیانہیں؟

2۔کیا میں اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کے نام کوئی چیز کرسکتی ہوں  یانہیں اور اس میں میرے انتقال کے بعد بیٹیوں کا حصہ ہوگا یانہیں؟

3۔دونوں بیٹیوں کی شادی میں پیسہ لگایا ہے تو ان کا مزید کوئی حصہ بنتاہے یانہیں؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں سائلہ نے اپنے شوہر کے مذکورہ پلاٹ اگر باقی ورثاء کی اجازت سے بیچ کر اس کی رقم کاروبار میں لگائی ہے تو اس کاروبار سے حاصل ہونے والے منافع میں تمام ورثاء اپنے اپنے حصوں کے بقدر حق دار ہوں گے،اور اس میں سائلہ اور اس کے بیٹے کی طرح  بیٹیاں بھی اپنے شرعی حصے کی حق دار ہیں۔

2۔زندگی میں اولاد کے درمیان جائیداد تقسیم کرنے کے بارے میں برابری کا حکم ہے  یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے نہ بلاوجہ کمی بیشی کرے اور نہ ہی کسی کو محروم کرے ورنہ گناہ ہوگا۔ ہاں  اگر اولاد میں کوئی خدمت  گزار  یا تنگ دست  یا دین دار ہویا کوئی اور معقول وجہ پائی جاتی ہو  تو اسے  دیگر کے مقابلے میں کچھ زیادہ دینا بھی جائزہے۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے سائلہ اگربیٹے کو کوئی چیز ہبہ (گفٹ) کرنا چاہتی ہے تو اس کے لئے شرعی حکم یہ ہے کہ تمام اولاد میں برابری کی بنیاد پر  تقسم کرے یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے نہ بلاوجہ کمی بیشی کرے اور نہ ہی کسی کو محروم کرے ورنہ گناہ ہوگا،البتہ مذکورہ وجوہات کی بناء پر اگر کسی کو دوسروں سے کچھ زیادہ دینا  چاہے تو دے سکتی ہے۔

3۔سائلہ نے اپنی بیٹیوں کی شادی سے پہلے اگر بیٹیوں کو بتادیا تھا کہ یہ اخراجات تمہارے حصوں سے شمار ہوں گے تب تو بیٹیوں کے شرعی حصوں سے منہا ہوں گے،ورنہ سائلہ پر آئیں گے البتہ اگر سب ورثاء مشترکہ ترکہ کی رقم سے شادیوں کے اخراجات کرنے پر راضی تھے بشرطیکہ تینوں بچے بھی عاقل بالغ تھے تو یہ سب کی طرف سے تبرع واحسان شمار  ہوگا،اس صورت میں بیٹیوں کو باقی ترکہ سے شرعی حصہ ملے گا۔

 شرح معانی الآثار میں ہے :

"عن الشعبي قال: سمعت النعمان على منبرنا هذا يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " سووا بين أولادكم في العطية كما تحبون أن يسووا بينكم في البر قال أبو جعفر: كأن المقصود إليه في هذا الحديث الأمر بالتسوية بينهم في العطية ليستووا جميعا في البر. "

(شرح معاني الآثار،کتاب الھبہ: ج4،ص:86ط:عالم الکتب)

حضرت شعبی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سےہمارے اس منبر پر سنا  ،  فرمارہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے اولاد کے درمیان عطیہ میں انصاف کرو جس طرح کہ تم پسند کرتے ہو کہ وہ  تمہارے ساتھ نیکی میں برابری کرے  ۔

بدائع الصنائع میں:

"الشركة في الأصل نوعان: شركة الأملاك، وشركة العقود وشركة الأملاك نوعان: نوع يثبت بفعل الشريكين، ونوع يثبت بغير فعلهما....

(وأما) الذي يثبت بغير فعلهما فالميراث بأن ورثا شيئا فيكون الموروث مشتركا بينهما شركة ملك."

(کتاب الشرکة :ج:6 ،ص:56،ط:سعید)

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

" تقسيم ‌حاصلات ‌الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم."

(الکتاب العاشر:الشرکات، الفصل الثانی فی بیان کیفیۃ التصرف فی الاعیان المشترکۃ، المادۃ:1073، ص:206،نورمحمد، کارخانہ تجارتِ کتب، آرام باغ کراچی)

البحر الرائق  میں ہے:

" يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلالزيادة فضل له في الدين"

(کتاب الھبه: ج،7،ص:288 ط: دار الکتب الإسلامي)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144306100808

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں