بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ تقسیم کرنے سے پہلے کاروبار میں لگایا،اب وراثت کیسے تقسیم ہوگی


سوال

ہم گیارہ بہن بھائی ہیں،سات بھائی اور چار بہنیں ہیں،ہمارے والد صاحب  کا انتقال 1993ء میں ہو چکا ہے،والدہ حیات ہیں،ہمارا آبائی گھر 2010ء میں 46لاکھ میں فروخت ہوا،تمام بھائیوں کی مشاورت سے اس میں مزید رقم ڈالی گئی اورکل رقم 70 لاکھ سے کاروبار کیا،یہ رقم تمام بھائیوں نے ملائی تھی لیکن کچھ حساب نہیں رکھا،دو سال تک کاروبار میں نفع ہوا ، نفع تمام بھائی آپس میں اپنے حساب سے تقسیم کرتے رہے،بہنوں کو اس میں سے کچھ حصہ نہیں دیا،تیسرے سال جب نقصان ہونے لگا تو ہم سب بھائیوں نے کاروبار ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا،اس وقت کل رقم 55 لاکھ تھی، بھائیوں نے آپس میں مشورہ سے یہ رقم تقسیم کرلی توگھر کی وہ رقم کم ہوکر 25 لاکھ رہ گئی تھی، اس رقم سے پلاٹ خریدا،اور اس پلاٹ پر  تعمیر پانچ بھائیوں نے ذاتی جیب خرچ سے کی،باقی دو بھائیوں نے اس میں حصہ نہیں لیا اور وہ علیحدہ رہتے تھے،آج 2022ء میں اس پلاٹ کی قیمت ایک کروڑ سے اوپر ہے۔

میرے پانچ بھائی جو  اسی گھر میں رہائش پذیر ہیں،ان کا کہنا ہے کہ جس کووراثت میں حصہ ملے گا،آبائی گھر جو بیچ دیا گیا ہے اس میں سے ملے گا یعنی 46 لاکھ روپے میں سے۔

پوچھنا یہ ہے کہ ہمیں موجودہ گھر میں آج کے حساب سے حصہ ملے گا یا 2010ء میں جس میں بیچا گیا تھا یعنی 46 لاکھ کے حساب سے،نیز وراثت بھی تقسیم کردیں۔

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں  سائل کے والد کی وفات کے بعد  جب بھائیوں نے مذکورہ گھر 46 لاکھ میں فروخت کیا تو اس رقم میں  سائل  کی والدہ اورسب  بہن بھائیوں کا حصہ تھا،جب اس رقم کو تقسیم کیے بغیر اس میں مزید رقم ملا کر کاروبار میں لگا یا گیا تو جن  ورثاء نے مزید رقم شامل کی، وہ اپنے وراثتی حصے اور اپنی لگائی ہوئی رقم کے تناسب سے، جب کہ دیگر ورثاء صرف اپنے وراثتی حصے کی بقدر اس کاروبار میں شریک تھےجس کی تفصیل یہ ہے کہ بیوہ 10.952381فیصد،ہر بہن 3.042328فیصد اور ہر بھائی 10.982615فیصد کے اعتبار سے مذکورہ کاروبار میں شریک تھا، لہذا اس کے بعد دو سالوں میں جتنا نفع  ہوا تھا اس میں تمام ورثاء کا مذکورہ تناسب کے بقدر حق تھا،پھر تیسرے سال  میں جو نقصان ہوا اس نقصان میں تمام ورثاء اپنے اپنے سرمائے کےبقدر  شریک ہوں گے،پھر جب  بھائیوں نے کاروبار ختم کیا تو اس وقت کل رقم 55 لاکھ تھی،جس میں سے تیس لاکھ بھائیوں نے آپس میں تقسیم کرلیے، بقیہ پچیس لاکھ سے ایک پلاٹ خریدا، جس کی قیمت ا ب ایک کروڑ سے زائد ہے۔

اس تمام صورتِ حال کا شرعی حکم یہ ہے کہ کاروبار میں جو نفع ہوا تھا اور جو تیس لاکھ روپے بھائیوں نے آپس میں تقسیم کیے تھے، بھائیوں پر شرعاً لازم ہے کہ وہ اس میں سے بہنوں اور والدہ  کو مذکورہ بالا تناسب سے ان کے حصے کی رقم ادا کریں، اسی طرح اس پلاٹ میں بھی تمام ورثاء کا حصہ ہے، لہذا اس میں سے بھی بہنوں کو موجودہ مالیت کے حساب سے حصہ دینا ضروری ہے،جس وقت مکان فروخت کیا تھا،اس مالیت کا اب تقسیم کے وقت اعتبار نہیں کیا جائےگا، البتہ جن بھائیوں نے  دوسرے ورثاء کی اجازت سےاس مشترکہ پلاٹ پر اپنے لیے تعمیر  کی ہے، تقسیم کے وقت تعمیر پر کیا ہوا ان کی خرچ کی ہوئی رقم  ان کو الگ سے دینا ضروری ہے۔

2۔والد مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ  سب سے پہلے کل ترکہ منقولہ و غیر منقولہ میں سے  اس  کے حقوقِ متقدمہ  یعنی تجہیز  و تکفین  کا  خرچہ نکالنے کے بعد مرحوم کے ذمہ  اگر کوئی قرض ہو تو اسے  کل ترکہ میں سے ادا کرنے کے بعد، مرحوم نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی ترکہ کے ایک تہائی حصے سے نافذ کرنے کے بعد باقی ماندہ ترکہ منقولہ و غیر منقولہکو 108 حصے کرکے اس میں سے 18 حصے مرحوم کی بیوہ کو،10 حصے ہر بیٹے کو اور 5 حصے ہر بیٹی کو ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

مسئلہ 108/6

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
15
18101010101010105555

یعنی کل ترکہ کا16.666667 فیصد بیوہ کو،9.2592953فیصد ہر بیٹے کو اور 4.6296296فیصد ہر بیٹی کو ملے گا۔

مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:

 "(المادة ١٠٧٣) ‌تقسيم ‌حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح."

                              (ص 206 ط:نور محمد )

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"النوع الثاني: ألا يكون للباني ‌والغارس في الأرض المذكورة حصة ما، وأن يكون ملكا للغير وفي البناء والغرس الواقعين في هذا أربعة وجوه:الوجه الأول، أن يبني أحد أبنية أو يغرس أشجارا لنفسه بأمر مالك الأرض وإذنه والإذن في هذه الصورة إما أن يكون إجارة وقد مر حكمه في المادة(531)وإما أن يكون إعارة وقد مر حكمه أيضا في المادة (83)"

(المادۃ :579/2،906،ط:دارلجیل)

وفیہ ایضا:

"استعارة ‌الأرض للبناء عليها ولغرس الأشجار صحيحة إلا أن للمعير أن يرجع على الإعارة في أي وقت أراد وأن يطلب قلع ذلك. أما إذا كانت الإعارة موقتة فيضمن المعير مقدار التفاوت الموجود بين قيمة الأبنية والأشجار مقلوعة حين قلعها وبين قيمتها مقلوعة في حالة بقائها إلى انقضاء المدة، مثلا إذا كانت قيمة الأبنية والأشجار مقلوعة في حالة قلعها في الحال اثني عشر دينارا وقيمتها على أن تبقى إلى انقضاء المدة عشرين دينارا وطلب المعير قلعها في الحال فيلزمه أداء ثمانية دنانير)"

‌‌(المادة :831استعارة ‌الأرض للبناء عليها ولغرس الأشجار،379/2،ط:دارالجیل)

 بدائع الصنائع میں ہے:

"فأما شركة الأملاك فحكمها في النوعين جميعا واحد، وهو أن كل واحد من الشريكين كأنه أجنبي في نصيب صاحبه، لا يجوز له التصرف فيه بغير إذنه لأن المطلق للتصرف الملك أو الولاية ولا لكل واحد منهما في نصيب صاحبه ولاية بالوكالة أو القرابة؛ ولم يوجد شيء من ذلك وسواء كانت الشركة في العين أو الدين لما قلنا"

(کتاب الشرکۃ،فصل فی حکم الشرکۃ،65/6 ط:دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100630

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں