بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کی تقسیم


سوال

میرے والد نے ریٹائرمنٹ کے بعد  دکان کھولی، والد صاحب کی طبعیت خراب ہونے پر میں نے نوکری چھوڑ کر والد صاحب  کی دکان پر بیٹھا،دکان میں والد صاحب کا مال تھا ، بعد میں  میں بھی مزید مال ملایا تھا ، لیکن یہ بات معلوم نہیں کہ میں نے کتنا  مال ملایا تھا،دکان کے منافع سے میں نے دو پلاٹ خرید لیے، پھر اس سےگھر بھی تعمیر کیا،اور والد صاحب کا انتقال بھی اسی گھر میں ہوا، ورثاء میں بیوہ ،دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں، اسی گھر میں سوسائٹی کی واجب الاداء رقم بھی تھے، جو میں نے ادا کئے،اسی دکان  کے منافع  سے بہن کی شادی پر  بغیر کسی معاہدہ  کے   میں نے تقریباً 13 لاکھ روپے خرچ کئے، اس وقت میں گھر کا سربراہ تھا،والدہ چاہتی ہیں کہ ہر ایک کو اس کے حصہ مل جائے،دریافت  کرنا یہ ہے کہ :

1 :بہن کی شادی پر میں نے جو رقم خرچ کی  وہ میں لے سکتا ہوں؟

2:بہنوں کا مطالبہ ہے کہ  میں  اتنا عرصہ دکان میں رہاہوں ، اس دکان  کا کرایہ ادا کرو،کیا بہنوں کا یہ مطالبہ درست ہے؟

جواب

1:واضح رہے کہ سائل نے اپنے والد   کی دکان کے  منافع  سے بہن کی شادی پر جو رقم خرچ کی  ہے ،چوں کہ بہن کی شادی  پر اس رقم کے خرچ کرتے وقت اس سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا، اس لیے بہن سے  اس رقم کا مطالبہ کرنا شرعًا  درست نہیں۔

2:مذکوررہ دکان  چوں کہ والد مرحوم کا ترکہ ہے ،جس میں سائل سمیت دیگر تمام ورثاء حصہ دار ہیں،لیکن سائل سے اس کی بہنوں نے اپنے حصے کی دکان میں کام کرنے پرکوئی کرایہ کا معاہدہ نہیں کیا  تھا ، لہذابہنوں کا سائل سے  اس دکان کے کرایہ کا مطالبہ  کرنا  شرعاً درست نہیں۔

باقی والد مرحوم کی مذکورہ دکان  اور کاروبار اور اس کے علاوہ جو بھی ترکہ ہو  ، اس کے تقسیم کرنے  کاشرعی طریقہ  یہ ہےکہ سب سے پہلے مرحوم کے کل ترکہ سے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین  کا خرچہ نکالنے کے بعداگر مرحوم کے ذمہ کسی کا  قرض ہو   تو اس  کی ادائیگی کے بعد اگرانہوں نے  کوئی جائزوصیت کی ہو تو   باقی مال کے ایک تہائی  میں  سے اس کو نافذ کرنے کے بعد مذکورہ دکاناور اس کے علاوہ جو بھی ترکہ ہو     اس کو 64 حصے کرکے مرحوم کی بیوہ کو  8 حصے، ہر بیٹے کو 14 حصے، جبکہ ہر بیٹی کو 7 حصے ملیں گے۔

صورت تقسیم درج ذیل ہے:

میت: مسئلہ: 64/8

بیوہبیٹابیٹابیٹی بیٹیبیٹیبیٹی
17
814147777

یعنی بیوہ کو12.50 فیصد،ہر بیٹے کو 21.875فیصد جبکہ ہر بیٹی کو 10.937فیصد ملے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لو واحد من الشريكين ‌سكن ... في الدار مدة مضت من الزمن...فليس للشريك أن يطالبه ... بأجرة السكنى ولا المطالبه...بأنه يسكن من الأول ... لكنه إن كان في المستقبل...يطلب أن يهايئ الشريكا ... يجاب فافهم ودع التشكيكا"

(حاشية ابن عابدين ،4/ 337،ط:سعید)

فتاوی رحیمیہ میں ہے :

جن بھائی  بہنوں کی شادی والد صاحب کے انتقال کے بعد ہوئی ہے کیا شادی کے وقت ان سے یہ کہا گیا تھا کہ جو کچھ ان کی شادی کے سلسلہ میں خرچ ہوگا تقسیم وراثت کے وقت اس  کووضع کیا جائے گا اگر باہمی یہ  معاہدہ ہوگیا ہو اور بھائی بہنوں نے اسے تسلیم   کیا ہو تب تو اخراجات وضع کرکے ان کا حصہ ادا کیا جائے گا اور اگر باہمی رضامندی سے  ایسا معاہدہ نہ ہوا ہوتو اسے تبرع واحسان کہا جائے گا، ان کے حصہ میں سے جبراوصول نہیں کیا جاسکتا، البتہ  اگر وہ اپنی مرضی سے وضع کرنے کے لئے  کہیں تو ان کی مرضی کی بات ہے۔

(فتاوی رحیمیہ ،ج: 10،ص:284)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100334

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں