بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو بازار میں تنہا چھوڑ کر جماعت میں شامل ہونے کا حکم


سوال

 بیوی کے ساتھ بازار جانے کے بعد جب نماز کا وقت ہو جائے تو کیا اسے تنہا چھوڑ کر جماعت میں شامل ہونا جائز ہے؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں حتی الوسع کوشش کی جائے کہ خواتین کو بازار نہ لے جایا جائے، اگر انتہائی مجبوری ہو تو ایسے وقت میں لے جائیں جس سے فرض نمازوں کی جماعت متاثر نہ ہو، لیکن اگر ایسے وقت میں بیوی کے ساتھ بازار چلے گئے اور جماعت کا وقت آگیا تواگر مسجد میں کسی جگہ الگ تھلک اس کا بیٹھنا ممکن ہو تو وہاں بٹھا دیا جائے یابیوی کو مسجد کے  قریب کسی اطمینان بخش جگہ میں انتظار کراکے جماعت کے ساتھ  نماز پڑھ لی جائے، تاکہ جماعت کی نماز بھی ادا ہوجائے اور ضرورت بھی پوری ہوجائے، لیکن اس عمل کو مستقل معمول بنانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

سنن ابی داود میں ہے:

'' عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من سمع المنادي فلم يمنعه من اتباعه، عذر»، قالوا: وما العذر؟، قال: «خوف أو مرض، لم تقبل منه الصلاة التي صلى."

(‌‌كتاب الصلاة‌‌، باب التشديد في ترك الجماعة،٤١٣/١،ط : دار الرسالة العالمية)

"ترجمہ :حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مؤذن کی آواز سنے اور کسی عذر کے نہ ہونے کے باوجود مسجد کو  نہ جائے (بلکہ گھر میں ہی نماز پڑھ لے)  تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔صحابہ نے پوچھا: عذر کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: خوف (یعنی دشمن کا) یا مرض۔"

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"الجماعة سنة مؤكدة. كذا في المتون والخلاصة والمحيط ومحيط السرخسي وفي الغاية قال عامة مشايخنا: إنها واجبة وفي المفيد وتسميتها سنة لوجوبها بالسنة وفي البدائع تجب على الرجال العقلاء البالغين الأحرار القادرين على الصلاة بالجماعة من غير حرج...وتسقط الجماعة بالأعذار حتى لا تجب على المريض والمقعد والزمن ومقطوع اليد والرجل من خلاف ومقطوع الرجل والمفلوج الذي لا يستطيع المشي والشيخ الكبير العاجز والأعمى عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - والصحيح أنها تسقط بالمطر والطين والبرد الشديد والظلمة الشديدة. كذا في التبيين وتسقط بالريح في الليلة المظلمة وأما بالنهار فليست الريح عذرا وكذا إذا كان يدافع الأخبثين أو أحدهما أو كان إذا خرج يخاف أن يحبسه غريمه في الدين أو يريد سفرا وأقيمت الصلاة فيخشى أن تفوته القافلة أو كان قيما لمريض أو يخاف ضياع ماله وكذا إذا حضر العشاء وأقيمت صلاته ونفسه تتوق إليه، وكذا إذا حضر الطعام في غير وقت العشاء ونفسه تتوق إليه. كذا في السراج الوهاج."

[كتاب الصلاة، الفصل الأول في الجماعة،٨٢/١، ط: دار الكتب العلمية.]

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وتسقط الجماعة بالأعذار حتى لا تجب على المريض والمقعد والزمن ومقطوع اليد والرجل من خلاف ومقطوع الرجل والمفلوج الذي لا يستطيع المشي والشيخ الكبير العاجز والأعمى عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - والصحيح أنها تسقط بالمطر والطين والبرد الشديد والظلمة الشديدة. كذا في التبيين، وتسقط بالريح في الليلة المظلمة وأما بالنهار فليست الريح عذرا وكذا إذا كان يدافع الأخبثين أو أحدهما أو كان إذا خرج يخاف أن يحبسه غريمه في الدين أو يريد سفرا وأقيمت الصلاة فيخشى أن تفوته القافلة أو كان قيما لمريض أو يخاف ضياع ماله وكذا إذا حضر العشاء وأقيمت صلاته ونفسه تتوق إليه، وكذا إذا حضر الطعام في غير وقت العشاء ونفسه تتوق إليه. كذا في السراج الوهاج".

( كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، الفصل الأول في الجماعة،٨٣/٤،  ط. رشيديه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503100958

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں